آیات
69
وحی کی جگہ
مکہ
آیت کے فقرے
مَثَلُ الَّذِینَ التَّخَذُوا مِن دُونِ اللہِ اَو لِیَاءَ کَمَثَلِ العَنکَبُوتِسے ماخوذ ہے۔مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں لفظ
”عنکبوت
“آیا ہے۔
آیات۵٦ تا ٦۰ سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورة ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی۔ باقی مضامین کی اندرونی شہادت بھی اسی کی تائید کرتی ہے، کیونکہ پس منظر میں اسی زمانے کے حالات جھلکتے ہیں۔ بعض مفسرین نے صرف اس دلیل کی بنا پر کہ اس میں منافقین کا ذکر آیا ہے اور نفاق کا ظہور مدینہ میں ہوا ہے، یہ قیاس قائم کر لیا کہ اس سورة کی ابتدائی دس آیات مدنی ہیں اور باقی سورة مکی ہے۔ حالانکہ یہاں جن لوگوں کے نفاق کا ذکر ہے وہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے ظلم و ستم اور شدید جسمانی اذیتوں کے ڈر سے منافقانہ روش اختیار کررہے تھے، اور ظاہر ہے کہ اس نوعیت کا نفاق مکہ ہی میں ہوسکتا تھا نہ کہ مدنیہ میں ۔ اسی طرح بعض دوسرے مفسرین نے یہ دیکھ کر کہ اس سورة میں مسلمانوں کو ہجرت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اسے مکہ کی آخری نازل شدہ سورت قرار دیا ہے ۔ حالانکہ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مسلمان حبشہ کی طرف بھی ہجرت کرچکے تھے۔ یہ تمام قیاسات دراصل کسی روات پر مبنی نہیں ہیں بلکہ صرف مضامین کی اندرونی شہادت پر ان کی بنا رکھی گئی ہے۔ اور یہ اندرونی شہادت، اگر پوری سورت کے مضامین پر بحیثیت مجموعی نگاہ ڈالی جائے، مکہ کے آخری دور کی نہیں بلکہ اس دور کے حالات کی نشاندہی کرتی ہے جس میں ہجرت حبشہ واقع ہوئی تھی۔
سورة کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کا زمانہ مکہ معظمہ میں مسلمانوں پر بڑے مصائب و شدائد کا زمانہ تھا۔ کفار کی طرف سے اسلام کی مخالفت پورے زور و شور سے ہورہی تھی اور ایمان لانے والوں پر سخت ظلم و ستم توڑے جارہے تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورة ایک طرف صادق الایمان لوگوں میں عزم و ہمت اور استقامت پیدا کرنے کے لئے ، اور دوسری طرف ضعیف الایمان لوگوں کو شرم دلانے کے لئے نازل فرمائی۔ اس کے ساتھ کفار مکہ کوبھی اس میں سخت تہدید کی گئی کہ اپنے حق میں اس انجام کو دعوت نہ دیں جو عداوت حق کا طریقہ اختیار کرنے والے ہر زمانے میں دیکھتے رہے ہیں۔
اس سلسلے میں ان سوالات کا جواب بھی دیا گیا ہے جو بعض نوجوانوں کو اس وقت پیش آرہے تھے ۔ مثلا ان کے والدین ان پر زور ڈالتے تھے کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کا ساتھ چھوڑ دو اور ہمارے دین پر قائم رہو۔ جس قرآن پر تم ایمان لائے ہو اس میں بھی تو یہی لکھا ہے کہ ماں باپ کا حق سب سے زیادہ ہے ۔ تو ہم جو کچھ کہتے ہیں اسے مانو ورنہ تم خود اپنے ہی ایمان کے خلاف کام کرو گے۔ اس کا جواب آیت ۸ میں دیا گیا ہے۔اسی طرح بعض نو مسلموں سے ان کے قبیلے کے لوگ کہتے تھے کہ عذاب ثواب ہماری گردن پر، تم ہمارا کہنا مانو اور اس شخص سے الگ ہوجاوٴ۔ اگر خدا تمہیں پکڑے گا تو ہم خود آگے بڑھ کر کہہ دیں گے کہ صاحب، ان بے چاروں کا کچھ قصور نہیں ، ان کو ہم نے ایمان چھوڑے پر مجبور کیا تھا، اس لئے آپ ہمیں پکڑلیں۔ اس کا جواب آیات ١۲۔١۳ میں دیا گیا ہے۔
جو قصے اس سورة میں بیان کئے گئے ہیں ان میں بھی زیادہ تر یہی پہلو نمایاں ہے کہ پچھلے انبیاء کو دیکھو، کیسی کیسی سختیاں ان پر گزریں اور کتنی کتنی مدت وہ ستائے گئے۔ پھر آخر کار اللہ کی طرف سے اس کی مدد ہوئی۔ اس لئے گھبراو ٴ نہیں۔ اللہ کی مدد ضرور آئے گی، مگر آزمائش کا ایک دور گزرنا ضروری ہے۔ مسلمانوں کو یہ سبق دینے کے ساتھ کفار مکہ کو بھی ان قصوں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر خدا کی طرف سے پکڑ ہونے میں دیر لگ رہی ہے تو یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ کبھی پکڑ ہوگی ہی نہیں ۔ پچھلی تباہ شدہ قوموں کے نشانات تمہارےسامنے ہیں ۔ دیکھ لو آخر کار ان کی شامت آکر رہی اور خدا نے اپنے نبیوں کی مدد کی ۔پھر مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ اگر ظلم و ستم تمہارے لئے ناقابل برداشت ہوجائے تو ایمان چھوڑنے کے بجائے گھر بار چھوڑ کر نکل جاوٴ۔ خدا کی زمین وسیع ہے۔ جہاں خدا کی بندگی کر سکو وہاں چلے جاوٴ۔
ان سب باتوں کے ساتھ کفار کی تفہیم کا پہلو بھی چھوٹنے نہیں پایا ہے۔ توحید اور معاد، دونوں حقیقتوں کو دلائل کے ساتھ ان کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے، شرک کا ابطال کیا گیا ہے، ١ور آثار کائنات کی طرف توجہ دلا کر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ سب نشانات اس تعلیم کی تصدیق کر رہے ہیں جو ہمارا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)تمہارے سامنے پیش کررہا ہے۔