آیات
8
وحی کی جگہ
مکہ
پہلی آیت کے لفظ
التکاثُرکو اس سورۃ کا نام قرار دیا گیا ہے۔
ابو حَیّان اور شَوکانی کہتے ہیں کہ یہ تمام مفسّرین کے نزدیک مکّی ہے۔ اور امام سیوطِی کا قول ہے کہ مشہور ترین بات یہی ہے کہ یہ مکّی ہے، لیکن بعض روایات ایسی ہیں جن کی بنا پر اسے مدنی کہا گیا ہے، اور وہ یہ ہیں:
ابن ابی حاتم نے ابوبُرَیدہؓ کی روایت نقل کی ہے کہ یہ سورۃ انصا کے دو قبیلوں بنی حارثہ اور بنی الحرث کے بارے میں نازل ہوئی۔ دونوں قبیلوں کنے ایک دوسرے کے مقابلے میں پہلے اپنے زندہ آدمیوں کے مَفاخِر بیان کیے، پھر قبر ستان جا کر اپنے اپنے مرے ہوئے لوگوں کے مفاخر پیش کیے۔ اس پر یہ ارشادِ الہٰی نازل ہوا کہ
اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُر۔ لیکن شانِ نزول کے بارے میں صحابہ و تابعین کا جو طریقہ تھا ، اُس کو اگر نگاہ میں رکھا جائے تو یہ روایت اِس امر کی دلیل نہیں ہے کہ سُورۂ تکاثُر اسی موقع پر نازل ہوئی تھی ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اِن دونوں قبیلوں کے اِس فعل پر یہ سُورۃ چسپاں ہوتی ہے۔
امام بخاری اور ابن جریر نے حضرت اُبَیّ بن کعبؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس ارشاد کو کہ لو ان لابن اٰدم وادیین من مال لتمنّٰی وادیًا ثالثًا ولا یَمْلَأُ جوف ابن اٰدم الّا التراب(اگر آدم زاد کے پاس دو وادیاں بھر کر مال ہو تو وہ تیسری وادی کی تمنّا کرے گا۔ ابن آدم کا پیٹ مٹّی کے سوا کسی چیز سے نہیں بھر سکتا) قرآن میں سے سمجھتے تھے ، یہاں تک کہ
اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرنازل ہوئی۔“ اس حدیث کو سورۂ تکاثر کے مدنی ہونے کی دلیل اس بنا پر قرار دیا گیا ہے کہ حضرت اُبَیّ مدینے میں مسلمان ہوئے تھے۔ مگر حضرت اُبَیّ کے اس بیان سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ صحابہ کرام کس معنی میں حضورؐ کے اس ارشاد کو قرآن میں سے سمجھتے تھے۔ اگر اس کا مطلب یہ ہو کہ اسے قرآن کی ایک آیت سمجھتے تھے تو یہ بات ماننے کے لائق نہیں ہے ، کیونکہ صحابہ کی عظیم اکثریت اُس اصحاب پر مشتمل تھی جو قرآن کے حرف حرف سے واقف تھے، ان کو یہ غلط فہمی کیسے لاحق ہو سکتی تھی کہ یہ حدیث قرآن کی ایک آیت ہے۔ اور اگر قرآن میں سے ہونے کا مطلب قرآن سے ماخوذ ہونا لیا جائے تو اس روایت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مدینۂ طیبہ میں جو اصحاب داخل اسلام ہوئے تھے انہوں نے جب پہلی مرتبہ حضورؐ کی زبانِ مبارک سے یہ سورۃ سُنی تو انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ ابھی نازل ہوئی ہے ، اور پھر حضورؐ کے مذکورۂ بالا ارشاد کے متعلق اُن کو یہ خیال ہو اکہ وہ اِسی سورۃ سے ماخوذ ہے۔
ابن جریر ، ترمذی اور ابن المُنذِر وغیر محدثین نے حضرت علیؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ”ہم عذابِ قبر کے بارے میں برابر شک میں پڑے رہے یہاں تک کہ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرنازل ہوئی۔“ اِس کو سُورہ ٔ تکاثر کے مدنی ہونے کے دلیل اس بنا پر قرار دیا گیا ہے کہ عذابِ قبر کا ذکر مدینے ہی میں ہوا تھا ، مکّہ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوا تھا۔ مگر یہ بات غلط ہے ۔ قرآن کی مکّی سورتوں میں بکثرت مقامات پر قبر کے عذاب کا ایسے صریح الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے کہ شک کی گنجائش نہیں رہتی۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الانعام، آیت ۹۳۔ النحل، ۲۸۔ المومنون ۱۰۰-۹۹۔ المومن ۴۶-۴۵۔ یہ سب مکّی سورتیں ہیں۔ اس لیے حضرت علیؓ کے ارشاد سے اگر کوئی چیز ثابت ہوتی ہے تو وہ یہ ہے کہ مذکورۂ بالا مکّی سورتوں کے نزول سے پہلے سورۂ تکاثُر نازل ہو چکی تھی ، اور اُس کے نزول نے عذابِ قبر کے بارے میں صحابہ کے شک کو دور کر دیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اِن روایات کے باوجود مفسّرین کی عظیم اکثریت اس کے مکّی ہونے پر متفق ہے۔ ہمارے نزدیک صرف یہی نہیں کہ یہ مکّی سورۃ ہے، بلکہ اس کا مضمون اور اندازِ بیان یہ بتا رہا ہے کہ یہ مکّے کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔موضوع اور مضمون: اِس میں لوگوں کو اُس دنیا پرستی کے برے انجام سے خبردار کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ مرتے دم تک زیادہ سے زیادہ مال و دولت، اور دنیوی فائدے اور لذّتیں اور جوہ و اقتدار حاصل کرنے اور اُس میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے ، اور انہی چیزوں کے حصول پر فخر کرنے میں لگے رہتے ہیں ،اور اِس ایک فکر نے اُن کو اس قدر منہمک کر رکھا ہے کہ انہیں اس سے بالاتر کسی چیز کی طرف توجہ کرنے کا ہوش ہی نہیں ہے۔ اِس کے برے انجام پر متنبہ کرنے کے بعد لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ نعمتیں جن کو تم یہاں بے فکری کے ساتھ سمیٹ رہے ہو، یہ محض نعمتیں ہی نہیں ہیں بلکہ تمہاری آزمائش کا سامان بھی ہیں۔ ان میں سے ہر نعمت کے بارے میں تم کو آخرت میں جواب دہی کرنی ہو گی۔