آیات
21
وحی کی جگہ
مکہ
پہلے ہی لفظ وَالَّیْل
کو اس سُورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔
اس کا مضمون سورۂ شمس سے اِس قدر مشابہ ہے کہ یہ دونوں سورتیں ایک دوسرے کی تفسیر محسوس ہوتی ہیں ۔ ایک ہی بات ہے جسے سورۂ شمس میں ایک طریقہ سے سمجھایا گیا ہے اور اِس سورہ میں دوسرے طریقے سے ۔ اِس سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ دونوں قریب قریب ایک ہی زمانے میں نازل ہو ئی ہیں۔
اِس کا موضوع زندگی کے دو مختلف راستوں کا فرق اور ان کے انجام اور نتائج کا اختلاف بیان کرنا ہے ۔ مضمون کے لحاظ سے یہ سورۃ دو حصّوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصّہ آغاز سے آیت ۱۱ تک ہے ، اور دوسرا حصّہ آیت ۱۲ سے آخر تک۔
پہلے حصّہ میں سب سے پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ نوع انسانی کے افراد ، اقوام اور گروہ دنیا میں جو سعی و عمل بھی کر رہے ہیں ، وہ لازمًا اپنی اخلاقی نوعیت کے لحاظ سے اُسی طرح مختلف ہیں جس طرح دن رات سے اور نر مادہ سے مختلف ہے۔ اِس کے بعد قرآن کی مختصر سورتوں کے عام انداز بیان کے مطابق تین اخلاقی خصوصیات ایک نوعیت کی، اور تین اخلاقی خصوصیات دوسری نوعیت کی سعی و عمل کے ایک وسیع مجموعے میں سے لے کر بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں جنہیں سن کر ہر شخص بڑی آسانی کے ساتھ یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ایک قسم کی خصوصیات کس طرزِ زندگی کی نمائندگی کرتی ہیں اور دوسری قسم کی خصوصیات اُس کے بر عکس کس دوسرے طرزِ زندگی کی علامات ہیں۔ یہ دونوں نمونے ایسے چھوٹے چھوٹے خوبصورت جچے تُلے فقروں میں بیان کیے گئے ہیں کہ سنتے ہی آدمی کے دل میں اتر جائیں اور زبان پر چڑھ جائیں۔پہلی قسم کی خصوصیات یہ ہیں کہ آدمی مال دے ، خدا ترسی و پرہیز گاری اختیار کرے اور بھلائی کو بھلائی مانے۔ دوسری قسم کی خصوصیات یہ ہیں کہ وہ بخل کرے، خدا کی رضا اور ناراضی کی فکر سے بے پروا ہو جائے اور بھلی بات کو جھُٹلا دے۔ پھر بتایا گیا کہ یہ دو طرزِ عمل جو صریحًا ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اپنے نتائج کے اعتبار سے ہر گز یکساں نہیں ہیں، بلکہ جس قدر یہ اپنی نوعیت میں متضاد ہیں اسی قدر اِن کے نتائج بھی متضاد ہیں۔ پہلے طرزِ عمل کو جو شخص یا گروہ اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے زندگی کے صاف اور سیدھے راستے کو سہل کر دے گا یہاں تک کہ اس کے لیے نیکی کرنا آسان اور بدی کرنا مشکل ہو جائے گا ۔ اور دوسرے طرزِ عمل کو جو بھی اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے زندگی کے بِکَٹ اور سخت راستے کو سہل کر دے گا یہاں تک کہ اس کے لیے بد آسان اور نیکی مشکل ہو جائے گی۔ اِس بیان کو ایک نہایت مؤثر اور تیر کی طرح دل میں پیوست ہو جانے والے جملے پر ختم کیا گیا ہے کہ دنیا کا یہ مال جس کے پیچھے آدمی جان دیے دیتا ہے ، آخر قبر میں تو اُس کے ساتھ جانے والا نہیں ہے ، مرنے کے بعد یہ اُس کے کس کام آئے گا؟
دوسرے حصّے میں بھی اِسی اختصار کے ساتھ تین حقیقتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ نے دنیا کی اِس امتحان گاہ میں انسان کو بے خبر نہیں چھوڑا ہے بلکہ اُس نے یہ بتا دینا اپنے ذمّہ لیا ہے کہ زندگی کے مختلف راستوں میں سے سیدھا راستہ کو ن سا ہے ۔ اس کے ساتھ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ اپنا رسول اور اپنی کتاب بھیج کر اُس نے اپنی یہ ذمہ داری ادا کردی ہے ، کیونکہ رسول ؐ اور قرآن، دونوں ہدایت دینے کے لیے سب کے سامنے موجود تھے۔ دوسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کا مالک اللہ ہی ہے۔ دنیا مانگو گے تو بھی اسی سے ملے گی اور آخرت مانگو گے تو اس کا دینے والا بھی وہی ہے۔ یہ فیصلہ کرنا تمہارا اپنا کام ہے کہ تم اُس سے کیا مانگتے ہو۔ تیسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ جو بدبخت اُس بھلائی کو جُھٹلائے گا جسے رسول اور کتاب کے ذریعہ سے پیش کیا جا رہا ہے ، اور اُس سے منہ پھیرے گا اُس کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار ہے۔ اور جو خدا ترس آدمی پوری بے غرضی کے ساتھ محض اپنے ربّ کی رضا جوئی کی خاطر اپنا مال راہِ خیر میں صرف کرے گا اُس کا ربّ اُس سے راضی ہو گا اور اسے اتنا کچھ دے گا کہ وہ خوش ہو جائے گا۔