آیات
40
وحی کی جگہ
مکہ
پہلی ہی آیت کے لفظ اَلْقِیٰمَۃ
کو اس سُورہ کا نام قرار دیا گیا ہے ، اور یہ صرف نام ہی نہیں ہے۔بلکہ اس سُورہ کا عنوان بھی ہے۔ کیونکہ اس میں قیامت ہی پر بحث کی گئی ہے۔
اگرچہ کسی روایت سے اِس کا زمانہ نزول معلوم نہیں ہوتا ، لیکن اِس کے مضمون میں ایک داخلی شہادت ایسی موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل ابتدائی زمانہ کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔ آیت ۱۵ کے بعد یکایک سلسلہ کلام توڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا جاتا ہے کہ”اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اِس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمّہ ہے، لہٰذا جب ہم اِسے پڑھ رہے ہوں اس وقت تم اس کی قرأت کو غور سے سنتے رہو، پھر اس کا مطلب سمجھا دنیا بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے“۔ اس کے بعد آیت ۲۰ سے پھر وہی مضمون شروع ہوجاتا ہے جو ابتدا سے آیت ۱۵ تک چلا آ رہا تھا۔ یہ جملہ معترضہ اپنے موقع و محل سے بھی اور روایات کی رُو سے بھی اِس بنا پر دورانِ کلام میں وارد ہوا ہے کہ جس وقت حضرت جبریلؑ یہ سورہ حضورؐ کو سنا رہے تھے اُس وقت آپ اِس اندیشے سے کہ کہیں بعد میں بھول نہ جائیں، اس کے الفاظ اپنی زبان مبارک سے دُہراتے جا رہے تھے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اُس زمانہ کا ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نزولِ وحی کا نیا نیا تجربہ ہو رہا تھا اور ابھی آپ کو وحی اخذ کرنے کی عادت اچھی طرح نہیں پڑی تھی۔ قرآن مجید میں اس کی دو مثالیں اور بھی ملتی ہیں۔ ایک سورہ طٰہٰ میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا ہے
وَلاَ تَجْعَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰیٓ اِلَیْکَ وَحْیُہٗ،”اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے“(آیت۱۱۴)۔دوسرے سورہ اعلیٰ میں جہاں حضور ؐ کو اطمینان دلا یا گیا ہے کہ سَنُقْرِ ئُکَ فَلاَ تَنْسیٰ،”ہم عنقریب تم کو پڑھو ا دینگے پھر تم بھولو گے نہیں“(آیت۶)۔ بعد میں جب حضور ؐ کو وحی اخذ کرنے کی اچھی طرح مشق ہو گئی تو اِس طرح کی ہدایات دینے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اسی لیے قرآن میں اِن تین مقامات کے سوا اِس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔
یہاں سے آخرِ کلام اللہ تک جو سُورتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے اکثر اپنے مضمون اور انداز بیان سے اُس زمانہ کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہیں جب سورہ مُدثِّر کی ابتدائی سات آیات کے بعد نزول قرآن کا سلسلہ بارش کی طرح شروع ہوا اور پے در پے نازل ہونے والی سُورتوں میں ایسے پُرزور اور مؤثر طریقہ سے نہایت جامع اور مختصر فقروں میں اسلام اور اس کے بنیادی عقائد اور اخلاقی تعلیمات کو پیش کیا گیا اور اہل مکہ کو ان کی گمراہیوں پر متنبہ کیا گیا جس سے قریش کے سردار بَوکھلا گئے اور پہلا حج آنے سے پہلے حضورؐ کو زک دینے کی تدبیریں سوچنے کے لیے انہوں نے وہ کانفرنس منعقد کی جس کا ذکر ہم سورہ مدّثِر کے دیباچہ میں کر چکے ہیں۔
اس سُورہ میں منکرینِ آخرت کو خطاب کر کے ان کے ایک ایک شبہ اور ایک ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے، بڑے مضبوط دلائل کے ساتھ قیامت اور آخرت کے امکان، وقوع اور وجوب کا ثبوت دیا گیا ہے، اور یہ بھی صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ جو لوگ بھی آخرت کا انکا ر کرتے ہیں ان کے انکار کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کی عقل اسے ناممکن سمجھتی ہے، بلکہ اس کا اصل محِرّک یہ ہے کہ ان کی خوا ہشاتِ نفس اسے ماننا نہیں چاہتیں۔ اس کے ساتھ لوگوں کو خبر دار کر دیا گیا ہے کہ جس وقت کے آنے کا تم انکار کر رہے ہو وہ آکر رہے گا، تمہارا سب کیا دھرا تمہارے سامنے لا کر رکھ دیا جائے گا، اور حقیقت میں تو اپنا نامہ اعمال دیکھنے سے بھی پہلے تم میں سے ہر شخص کو خود معلوم ہوگا کہ وہ دنیا میں کیا کر کے آیا ہے، کیونکہ کوئی شخص بھی اپنے آپ سے ناواقف نہیں ہوتا، خواہ وہ دنیا کو بہکانے اور اپنے ضمیر کو بہلانے کے لیے اپنی حرکات کے لیے کتنے ہی بہانے اور عذرات تراشتا رہے۔