آیات
118
وحی کی جگہ
مکہ
پہلی ہی آیت
اَدْ اَ فْلَحَ الْمُؤْ مِنُوْنَسے ماخوذ ہے۔
انداز بیان اور مضامین ، دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سورے کا زمانہ نزول مکے کا دور متوسط ہے۔ پس منظر میں صاف محسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار کے درمیان سخت کشمکش برپا ہے ، لیکن ابھی کفار کے ظلم و ستم نے پورا زور نہیں پکڑا ہے۔ آیت 75۔ 76 سے صاف طور پر یہ شہادت ملتی ہے کہ یہ مکے کے اس قحط کی شدت کے زمانے میں نازل ہوئی ہے جو معتبر روایات کی رو سے اسی دور متوسط میں برپا ہوا تھا۔ عروہ بن زُبیر کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت عمر ایمان لا چکے تھے۔ وہ عبدالرحمٰن بن عبدالقاری کے حوالہ سے حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ سورۃ ان کے سامنے نازل ہوئی ہے۔ وہ خود نزول وحی کی کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری ہوتے دیکھ رہے تھے ، اور جب حضورؐ اس سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ مجھ پر اس وقت دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر کوئی ان کے معیار پر پورا اتر جائے تو یقیناً جنت میں جائے گا، پھر آپ نے اس سورے کی ابتدائی آیات سنائیں (احمد، ترمذی ، نسائی، حاکم)۔
اتباع رسول کی دعوت اس سورت کا مرکزی مضمون ہے اور پوری تقریر اسی مرکز کے گرد گھومتی ہے۔ آغاز کلام اس طرح ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس پیغمبر کی بات مان لی ہے ، ان کے اندر یہ اور یہ اوصاف پیدا ہو رہے ہیں ، اور یقیناً ایسے ہی لوگ دنیا و آخرت کی فلاح کے مستحق ہیں۔ اس کے بعد انسان کی پیدائش، آسمان و زمین کی پیدائش، نباتات و حیوانات کی پیدائش، اور دوسرے آثار کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، جس سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ توحید اور معاد کی جن حقیقتوں کو ماننے کے لیے یہ پیغمبر تم سے کہتا ہے ان کے برحق ہونے پر تمہارا اپنا وجود اور یہ پورا نظام عالم گواہ ہے۔ پھر انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں کے قصے شروع کیے گئے ہیں ، جو بظاہر تو قصے ہی نظر آتے ہیں ، لیکن در اصل اس پیرائے میں چند باتیں سامعین کو سمجھائی گئی ہیں :
اول یہ کہ آج تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر جو شبہات و اعتراضات وارد کر رہے ہو وہ کچھ نئے نہیں ہیں۔ پہلے بھی جو انبیاء دنیا میں آئے تھے ، جن کو تم خود فرستادہ الہٰی مانتے ہو، ان سب پر ان کے زمانے کے جاہلوں نے یہی اعتراضات کیے تےی۔ اب دیکھ لو کہ تاریخ کا سبق کیا بتا رہا ہے۔ اعتراضات کرنے والے بر حق تھے یا انبیاء؟ دوم یہ کہ توحید و آخرت کے متعلق جو تعلیم محمد صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے ہیں یہی تعلیم ہر زمانے کے انبیاء نے دی ہے۔ اس سے مختلف کوئی نرالی چیز آج نہیں پیش کی جا رہی ہے جو کبھی دنیا نے نہ سنی ہو۔ سوم یہ کہ جن قوموں نے انبیاء کی بات سن کر نہ دی اور ان کی مخالفت پر اصرار کیا وہ آخر کار تباہ ہو کر رہیں۔ چہارم یہ کہ خدا کی طرف سے ہر زمانے میں ایک ہی دین آتا رہا ہے اور تمام انبیاء ایک ہی امت کے لوگ تھے۔ اس دین واحد کے سوا جو مختلف مذاہب تم لوگ دنیا میں دیکھ رہے ہو یہ سب لوگوں کے طبع زاد ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی منجانب اللہ نہیں ہے۔ ان قصوں کے بعد لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ دنیوی خوش حالی ، مال و دولت، آل داد لاد چشم و خَدَمِ قوت و اقتدار وہ چیزیں نہیں ہیں جو کسی شخص یا گروہ کے راہ راست پر ہونے کی یقینی علامت ہوں اور اس بات کی دلیل قرار دی جائیں کہ خدا اس پر مہربان ہے اور اس کا رویہ خدا کو محبوب ہے۔ اسی طرح کسی کا غریب اور خستہ حال ہونا بھی اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ خدا اس سے اور اس کے رویے سے ناراض ہے۔ اصل چیز جس پر خد اکے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے کا مدار ہے وہ آدمی کا ایمان اور اس کی خدا ترسی و راست بازی ہے۔ یہ باتیں اس لیے ارشاد ہوئی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مقابلے میں اس وقت جو مزاحمت ہو رہی تھی اس کے علم بردار سب کے سب مکے کے شیوخ اور بڑے بڑے سردار تھے۔ وہ اپنی جگہ خود بھی یہ گھمنڈ رکھتے تھے ، اور ان کے زیر اثر لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ نعمتوں کی بارش جن لوگوں پر ہو رہی ہے اور جو بڑھتے ہیں چلے جا رہے ہیں ان پر ضرور خدا اور دیوتاؤں کا کرم ہے۔ رہے یہ ٹوٹے مارے لوگ جو محمد کے ساتھ ہیں ، ان کی تو حالت خود ہی یہ بتا رہی ہے کہ خدا ان کے ساتھ نہیں ہے ، اور دیوتاؤں کی مار ہی ان پر پڑی ہوئی ہے۔ اس کے بعد اہل مکہ کو مختلف پہلوؤں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ قحط جو تم پر نازل ہوا ہے ، یہ ایک تنبیہ ہے۔ بہتر ہے کہ اس کو دیکھ کر سنبھلو اور راہ راست پر آ جاؤ۔ ورنہ اس کے بعد سخت تر سزا آئے گی جس پر بلبلا اٹھو گے۔ پھر ان کو از سر نو ان آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو کائنات میں اور خود ان کے اپنے وجود میں موجود ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ آنکھیں کھول کر دیکھو، جس توحید اور جس حیات بعد الموت کی حقیقت سے یہ پیغمبر تک کو آگاہ کر رہا ہ ، کیا ہر طرف اس کی شہادت دینے والے آثار پھیلے ہوئے نہیں ہیں ؟ کیا تمہاری عقل اور فطرت اس کی صحت و صداقت پر گواہی نہیں دیتی ؟ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ خواہ یہ لوگ تمہارے مقابلے میں کیسا ہی برا رویہ اختیار کریں ، تم بھلے طریقوں ہی سے مدافعت کرنا۔ شیطان کبھی تم کو جوش میں لا کر برائی کا جواب برائی سے دینے پر آمادہ نہ کرنے پائے۔ خاتمہ کلام پر مخالفینِ حق کو آخرت کی باز پرس سے ڈرایا گیا ہے اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ جو کچھ تم دعوت حق و راس کے پیروؤں کے ساتھ کر رہے ہو اس کا سخت حساب تم سے لیا جائے گا۔