مکہ
سورہ At-Tariq

آیات

17

وحی کی جگہ

مکہ

نام :

پہلی آیت کے لفظ

الطّارق

کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول :

اس کے مضمون کا اندازِ بیان مکّہ معظمہ کی ابتدائی سورتوں سے ملتا جُلتا ہے ، مگر یہ اُس زمانے کی نازل شدہ ہے جب کفار مکہ قرآن  اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو زک دینے کے لیے ہر طرح کی چالیں چل رہے تھے۔

موضوع اور مضمون:

      اس میں وہ مضمون بیان کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کو مرنے کے بعد، خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ دوسرے یہ کہ قرآن ایک قولِ فصیل ہے جسے کفار کی کوئی چال اور تدبیر زک نہیں دے سکتی۔

سب سے پہلے آسمان کے  تاروں کو اِس بات کی شہادت میں پیش کیا گیا ہے کہ کائنات کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو ایک ہستی کی نگہبانی کے بغیر اپنی جگہ قائم اور باقی رہ سکتی ہو۔ پھر انسان کا خود اس  کی اپنی ذات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کس طرح نطفے کی ایک بوند سے اُس کو وجود میں لایا گیا  اور جیتا جاگتا انسان بنا دیا گیا۔ اس کےبعد فرمایا گیا ہے کہ جو خدا  اِس طرح اُسے وجود میں لا یا ہے وہ یقیناً اُس کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔ اور یہ دوبارہ پیدائش اِس غرض کے لیے ہوگی کہ انسان کے اُن تمام رازوں کی جانچ پڑتال کی جائے جن پر دنیا میں پردہ پڑا رہ گیا تھا۔ اُس وقت اپنے اعمال کے نتائج بھگتنے سے انسان نہ اپنے بل بوتے پر بچ سکے گا اور نہ کوئی اُس کی مدد کو آسکے گا۔          خاتمہ کلام پر ارشاد ہوا ہے کہ جس طرح آسمان سے بارش کا برسنا اور زمین سے درختوں اور فصلوں کا اُگنا کوئی کھیل نہیں بلکہ ایک سنجیدہ کام ہے ، اُسی طرح قرآن میں جو حقائق بیان کیے گئے ہیں وہ بھی کوئی ہنسی مذاق نہیں ہیں بلکہ پختہ اور اٹل باتیں ہیں۔ کفار اس غلط فہمی میں ہیں کہ اُن کی چالیں اِس قرآن کی دعوت کو زک دے دیں گی، مگر انہیں خبر نہیں ہے کہ اللہ بھی ایک تدبیر میں لگا ہوا ہے اور اس کی تدبیر کے آگے کفار کی چالین سب دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ پھرا یک فقرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تسلی اور درپردہ کفار کو یہ دھمکی دے کر بات ختم کر دی گئی ہے کہ آپؑ ذرا صبر سے کام لیں  اور کچھ مدت کفار کو اپنی سی کر لینے دیں، زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ ان کی چالیں قرآن کو زک دیتی ہیں یا قرآن اُسی جگہ غالب آکر رہتا ہے جہاں یہ اُسے زک دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔