آیات
28
وحی کی جگہ
مکہ
”نوح“ اس سورة کا نام بھی ہے اور اس کے مضمون کا عنوان بھی، کیونکہ اس میں از اوّل تا آخر حضرت نوح علیہ السلام ہی کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔
یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی در کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، مگر اس کے مضمون کی داخلی شہادت اس امر کی نشان دہی کرتی ے کہ یہ اُس زمانے میں ناز ل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تبلیغ کے مقابلہ میں کفارِ مکہ کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کر چکی تھی۔
اس میں حضرت نوحؑ کا قصہ گوئی کی خاطر بیان نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اسے مقصود کارِ مکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہی رویہ اختیار کر رہے ہو جو حضرت نوحؑ کے ساتھ ان کی قوم نے اختیا ر کیا تھا، اور اس رویے سے اگرتم باز نہ آئے تو تمہیں بھی وہی انجام دیکھنا پڑے گا جو اُن لوگوں نےدیکھا۔ یہ بات پُوری سورة میں کہیں صاف الفاظ میں نہیں کہی گئی ہے، لیکن جس موقع پراور جن حالات میں یہ قصہ اہل مکہ کوسنایا گیاہے اُس پس منظر میں خود بخود یہ مضمون اِس سے مترشح ہوتا ہے۔
پہلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ حضرت نوحؑ کو جب اللہ تعالیٰ نے رسالت کے منصب پر مامور فرمایا تھا اُس وقت کیا خدمت اُن کے سپرد کی گئی تھی۔آیات ۲۔۴ میں مختصراً یہ بتا یا گیا ہے کہ اُنہوں نے اپنی دعوت کا آغاز کس طرح کیا اور اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے کیا بات پیش کی۔
پھر مدتہائے درازتک دعوت و تبلیغ کی زحمتیں اُٹھانے کے بعد جو رُوداد حضرت نوح ؑ نے اپنے رب کے حضور پیش کی وہ آیات۵۔۲۰ میں بیان کی گئی ہے۔ اس میں وہ عرض کرتے ہیں کہ کس کس طرح انہوں نے اپنی قوم کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کیں اور قوم نے ان کا مقابلہ کس ہٹ دھرمی سے کیا۔اس کے بعد حضرت نوحؑ کی آخری گزارش آیات ۲۱۔۲۴ میں درج کی گئی ہے جس میں وہ اپنے رب سے عرض کرتے ہیں کہ یہ قوم میری بات قطعی طور پر رد کر چکی ہے، اس نے اپنی تکمیل اپنے رئیسوں کے ہاتھ میں دے دی ہے، اور اُنہوں نے بہت بڑا مکر کا جال پھیلا رکھا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ اِن لوگوں نے ہدایت کی توفیق سلب کر لی جائے۔ یہ حضرت نوحؑ کی طرف سے کسی بے صبری کا مظاہرہ نہ تھا بلکہ صدیوں تک انتہائی صبر آزما حالات میں تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کے بعد جب وہ اپنی قوم سے پوری طرح مایوس ہو گئے تو انہوں نے یہ رائے قائم کی کہ اب اس کے قوم کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان باقی نہیں ہے۔ یہ رائے ٹھیک ٹھیک اللہ تعالیٰ کے اپنے فیصلے کے مطابق تھی۔ چنانچہ اس کے متصلاً بعد آیت ۲۵ میں ارشاد ہوا ہے کہ اُس قوم پر اس کے کرتوتوں کی وجہ سے خدا کا عذاب نازل ہوگیا۔
آخری آیات میں نوح علیہ السلام کی وہ دعا درج کی گئی ہے جو انہوں نے عین نزولِ عذاب کے وقت اپنے رب سے مانگی تھی۔ اس میں وہ اپنے لیے اور سب اہلِ ایمان کے لیے مغفرت طلب کر تے ہیں، اور اپنی قوم کے کافروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ ان میں سے کسی کو زمین پر بسنے کے لیے جیتا نہ چھوڑا جائے، کیونکہ ان کے اندر اب کوئی خیر باقی نہیں رہی ہے، ان کی نسل سے جو بھی اٹھے گا کافر اور فاجر ہی اٹھے گا۔اس سورہ کا مطالعہ کرتے ہوئے حضرت نوحؑ کے قصّے کی وہ تفصیلات نگاہ میں رہنی چاہییں جو اس سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہو چکی ہیں۔ ملاحظہ ہو الاعراف، آیات۵۹ تا۶۴۔ یونس،۷۱،۷۳۔ ہود،۲۵تا۴۹۔ المومنون، ۲۳تا ۳۱۔ الشُعراء،۱۰۵تا۱۲۲۔ العنکبوت،۱۴،۱۵۔الصّافات،۷۵تا۸۲۔ القمر،۹تا۱۶۔