آیات
85
وحی کی جگہ
مکہ
آیت 28 کے فقرے
وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَسے ماخوذ ہے، یعنی وہ سورہ جس میں اس خاص مومن کا ذکر آیا ہے۔
ابن عباس اور جابر بن زید کا بیان ہے کہ یہ سورۃ زمر کے بعد متصلاً نازل ہوئی ہے اور اس کا جو مقام قرآن مجید کی موجودہ ترتیب میں ہے وہی ترتیب نزول کے اعتبار سے بھی ہے۔
جن حالات میں یہ سورہ نازل لوئی ہے اُن کی طرف صاف اشارات اِس کے مضمون میں موجود ہیں۔ کفار مکہ نے اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف دو طرح کی کارروائیا ں شروع کر رکھی تھیں۔ ایک یہ کہ ہر طرف جھگڑے اور بحثیں چھیڑ کر، طرح طرح کے اُلٹے سیدھے سوالات اّٹھا کر، اور نت نئے الزامات لگا کر قرآن کی تعلیم اور اسلام کی دعوت اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں اتنے شبہات اور وسوسے لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دیے جائیں کہ ان کو صاف کرتے کرتے آخر کار حضورؐ اور اہل ایمان زچ ہو جائیں۔ دوسرے یہ کہ آپ کو قتل کر دینے کے لیے زمین ہموار کی جائے۔ چنانچہ اس غرض کے لیے وہ پیہم سازشیں کر رہے تھے، اور ایک مرتبہ تو عملاً انہوں نے اس کا اقدام کر بھی ڈالا تھا۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عُمژوبن عاص کی روایت ہے کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ و سلم حرم میں نماز پڑھ رہے تھے۔ یکایک عُقبہ بن ابی مُعَیط آگے بڑھا اورس نے آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اسے بَل دینا شروع کر دیا تاکہ گلا گھونٹ کر آپؐ کو مار ڈالے مگر عین وقت پر حضرت ابوبکر پہنچ گئے اور انہوں نے دھکا دے کر اسے ہٹا دیا۔ حضرت عبداللہ کا بیان ہے کہ جس وقت ابو بکر صدّیق اُس ظالم سے کشمکش کر رہے تھے اس وقت اُن کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ
اَتَقْتُلُوْ نَ رَجُلاً اَنْ یَّقُوْلَ رَ بِّیَ اللہ(کیا تم ایک شخص کو صرف اِس قصور میں مارے ڈالتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟)۔ تھوڑے اختلاف کے ساتھ یہ واقعہ سیرت ابن ہشام میں بھی منقول ہو ا ہے اور نَسَائی اور ابن ابی حاتم نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
صورت حال کے اِن دونوں پہلوؤں کو آغاز تقریر ہی میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے اور پھر آگے کی پوری تقریر انہی دونوں پر ایک انتہائی مؤثر اور سبق آموز تبصرہ ہے۔
قتل کی سازشوں کے جواب میں مومنِ آل فرعون کا قصّہ سنایا گیا ہے ( آیت 23 تا 55) اور اس قصے کے پیرائے میں تین گروہوں کو تین مختلف سبق دیے گئے ہیں :1۔ کفّار کو بتایا گیا ہے کہ جو تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کرنا چاہتے ہو یہی کچھ اپنی طاقت کے بھروسے پر فرعون حضرت موسیٰ کے ساتھ کرنا چاہتے تھا، اب کیا یہ حرکتیں کر کے تم بھی اُسی انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہو جس سے وہ دوچار ہوا؟
2۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے پیروؤں کو سبق دیا گیا ہے کہ یہ ظالم بظاہر خواہ کتنے ہی بالا دست اور چہرہ دست ہوں، اور ان کے مقابلہ میں تم خواہ کتنے ہی کمزور اور بے بس ہو، مگر تمہیں یقین رکھنا چاہیے کہ جس خدا کے دین کا بول بالا کرنے کے لیے تم کام کر رہے ہو اس کی طاقت ہر دوسری طاقت پر بھاری ہے۔ لہٰذا جو بڑی خوفناک دھمکی بھی یہ تمہیں دے سکتے ہیں، اس کے جواب میں بس خدا کی پناہ مانگ لو اور اس کے بعد بالکل بے خوف ہو کر اپنے کام میں لگ جاؤ۔ خدا پرست کے پاس ظالم کی ہر دھمکی کا بس ایک جواب ہے، اور وہ ہے اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبّیِ وَ بِرَبِّکُمْ مِّنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ۔اس طرح خدا کے بھروسے پر خطرات سے بے پروا ہو کر کام کرو گے تو آخر کار اس کی نصرت آ کر رہے گی اور آج کے فرعون بھی وہی کچھ دیکھ لیں گے جو کل کے فرعون دیکھ چکے ہیں۔ وہ وقت آنے تک ظلم و ستم کے جو طوفان بھی اُمڈ کر آئیں انہیں صبر کے ساتھ تمہیں برداشت کرنا ہو گا۔
3۔ ان دو گروہوں کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی معاشرے میں موجود تھا، اور وہ ان لوگوں کا گروہ تھا جو دلوں میں جان چکے تھے کہ حق محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہے اور کفّار قریش سراسر زیادتی کر رہے ہیں۔ مگر یہ جان لینے کے باوجود وہ خاموشی کے ساتھ حق و باطل کی اس کشمکش کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر اُن کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ جب حق کے دشمن علانیہ تمہاری آنکھوں کے سامنے اتنا بڑا ظالمانہ اقدام کرنے پر تُل گئے ہیں تو حیف ہے تم پر اگر اب بھی تم بیٹھے تماشا ہی دیکھتے رہو۔اس حالت میں جس شخص کا ضمیر بالکل مر نہ چکا ہو اُسے تو اُٹھ کر وہ فرض انجام دینا چاہیے جو فرعون کے بھرے دربار میں اُس کے اپنے درباریوں میں سے ایک راستباز آدمی نے اُس وقت انجام دیا تھا جب فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کرنا چاہا تھا۔ جو مصلحتیں تمہیں زبان کھولنے سے باز رکھ رہی ہیں، یہی مصلحتیں اُس شخص کے آگے بھی راستہ روک کر کھڑی ہوئی تھیں۔ مگر اُس نے اُفَوِّ ضُ اَمْرِیْ اِلَی اللہکہہ کر ان ساری مصلحتوں کو ٹھکرا دیا، اور اس کے بعد دیکھ لو کہ فرعون اُس کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔
اب رہا کفار کا وہ مجادلہ جو حق کو نیچا دکھانے کے لیے مکہ معظمہ میں شب و روز جاری تھا، تو اس کے جواب میں ایک طرف دلائل سے توحید اور آخرت کے اُن عقائد کا بر حق ہونا ثابت کیا گیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور کفار کے درمیان اصل بنائے نزاع تھے، اور یہ حقیقت صاف کھول کر رکھ دی گئی ہے کہ یہ لوگ کسی علم اور کسی دلیل و حجت کے بغیر سچائیوں کے خلاف خواہ مخواہ جھگڑ رہے ہیں۔ دوسرے طرف اُ ن اصل محرکات کو بے نقاب کیا گیا ہے جن کی بنا پر سردارانِ قریش اس قدر سرگرمی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ بظاہر ا نہوں نے یہ ڈھونگ رچا رکھا تھا کہ حضورؐ کی تعلیم اور آپؐ کے دعوائے نبوت پر انہیں حقیقی اعتراضات ہیں جن کی وجہ سے وہ ان باتوں کو نہیں مان رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ ان کے لیے محض ایک جنگ اقتدار تھی۔ آیت 56 میں یہ بات کسی لاگ لپیٹ کے بغیر اُن سے صاف کہہ دی گئی ہے کہ تمہارے انکار کی اصل وجہ وہ کبر ہے جو تمہارے دلوں میں بھرا ہوا ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ اگر لوگ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت تسلیم کر لیں گے تو تمہاری بڑائی قائم نہ رہ سکے گی۔ اسی وجہ سے تم ان کو زک دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہو۔اسی سلسلے میں کفار کو پے در پے تنبیہات کی گئی ہیں کہ اگر اللہ کی آیات کے مقابلے میں مجادلہ کرنے سے باز نہ آؤ گے تو اُسی انجام سے دوچار ہو گے جس سے پچھلی قومیں دوچار ہو چکی ہیں اور اس سے بدتر انجام تمہارے لیے آخرت میں مقدر ہے۔ اُس وقت تم پچھتاؤ گے، مگر اس وقت کا پچھتانا تمہارے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو گا۔