مدینہ
سورہ Al-Hadid

آیات

29

وحی کی جگہ

مدینہ

نام:

آیت 25 کے فقرے

وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْد

سے ماخوذ ہے ۔

زمانۂ نزول:

یہ بالاتفاق مدنی سورت ہے اور اس کے مضامین پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ غالباً یہ جنگ احد اور صلح حدیبیہ کے درمیان کسی زمانہ میں نازل ہوئی ہے ۔ وہی زمانہ تھا جب مدینہ کی مختصر سی اسلامی ریاست کو ہر طرف سے کفار نے اپنے نرغے میں لے رکھا تھا اور سخت بے رسو سامانی کی حالت میں اہل ایمان کی مٹھی بھر جماعت پورے عرب کی طاقت کا مقابلہ کر رہی تھی۔ اس حالت میں اسلام کو اپنے پردوں سے صرف جانی قربانی ہی درکار نہ تھی بلکہ مالی قربانی بھی درکار تھی، اور اس سورۃ میں اسی قربانی کے لیے پر زور اپیل کی گئی ہے ۔ اس قیاس کو آیت 10 مزید تقویت پہنچاتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی جماعت کو خطاب کر کے فرمایا ہے کہ فتح کے بعد جو لوگ اپنے مال خرچ کریں گے اور خدا کی راہ میں جنگ کریں گے وہ ان لوگوں کے برابر کبھی نہیں ہو سکتے جو فتح سے پہلے جان و مال کی قربانیاں دیں ۔ اس اسی کی تائید حضرت اَنَسؓ کی وہ روایت کرتی ہے جسے ابن مردویہ نے نقل کیا ہے

اَلَمْ یَأنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُھُمْ لِذِکْرِ اللہِ

کے متعلق فرماتے ہیں کہ نزول قرآن کے آغاز سے 17 برس بعد اہل ایمان درمیان قرار پاتا ہے ۔

موضوع اور مضمون:

  اس کا موضوع انفاق فی سبیل اللہ کی تلقین ہے ۔ اسلام کی تاریخ کے اس نازک ترین دور میں ، جبکہ عرب کی جاہلیت سے اسلام کا فیصلہ کن معرکہ برپا تھا، یہ سورۃ اس غرض کے لیے نازل فرمائی گئی تھی کہ مسلمانوں کو خاص طور مالی قربانیوں کے لیے آمادہ کیا جائے اور یہ بات ان کے ذہن نشین کرائی جائے کہ ایمان محض زبانی اقرار اور کچھ ظاہری اعمال کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ اور اس کے دین کے لیے مخلص ہونا اس کی اصل روح اور حقیقت ہے ۔ جو شخص اس روح سے خالی ہو اور خدا اور اس کے دین کے مقابلہ میں اپنی جان و مال اور مفاد کو عزیز تر رکھے اس کا اقرار ایمان کھوکھلا ہے جس کی کوئی قدر و قیمت خدا کے ہاں نہیں ہے ۔

اس مقصد کے لیے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئی ہیں تاکہ سامعین کو اچھی طرح یہ احساس ہو جائے کہ کس عظیم ہستی کی طرف سے ان کو مخاطب کیا جا رہا ہے ۔ اس کے بعد حسب ذیل مضامین سلسلہ وار ارشاد ہوئے ہیں ؛

ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی راہ خدا میں مال صرف کرنے سے پہلو تہی نہ کرے ۔ ایسا کرنا صرف ایمان ہی کے منافی نہیں ہے بلکہ حقیقت کے اعتبار سے بھی غلط ہے ۔ کیونکہ یہ مال در اصل خدا ہی کا مال ہے جس پر تم کو خلیفہ کی حیثیت سے تصرف کے اختیارات دیے  گئے ہیں ۔ کل یہی مال دوسروں کے پاس تھا، آج تمہارے پاس ہے ، اور کل کسی اور کے پاس چلا جائے گا۔ آخر کار اسے خدا ہی کے پاس رہ جانا ہے جو کائنات کی ہر چیز کا وارث ہے ۔ تمہارے کام اس مال کا کوئی حصہ اگر آسکتا ہے تو صرف وہ جسے تم اپنے  زمانہ تصرف میں خدا کے کام پر لگا دو۔

خدا کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینا اگرچہ ہر حال میں قابل قدر ہے ، مگر ان قربانیوں کی ادر و قیمت مواقع کی نزاکت کے لحاظ سے متعین ہوتی ہے ۔ ایک موقع وہ ہوتا ہے جب کفر کی طاقت بڑی زبردست ہو اور ہر وقت یہ خطرہ ہو کہ کہیں اسلام اس کے مقابلہ میں مغلوب نہ ہو جائے۔ دوسرا موقع وہ ہوتا ہے جب کفر و اسلام کی کشمکش میں اسلام کی طاقت کا پلڑا بھاری ہو جائے اور ایمان کو دشمنان حق کے مقابلہ میں فتح نصیب ہو رہی ہو۔ یہ دونوں حالتیں اپنی اہمیت کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیَ اس لیے جو قربانیاں ان مختلف حالتوں میں دی جائیں وہ بھی اپنی قیمت میں برابر نہیں ہیں ۔ جو لوگ اسلام کے ضعف کی حالت میں اس کو سربلند کرنے کے لیے جانیں لڑائیں اور مال صرف کریں ان کے درجہ کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو اسلام کے غلبے کی حالت میں اس کو مزید فروغ دینے کے لیے جان و مال قربان کریں ۔

راہ حق میں جو مال بھی صرف کیا جائے وہ اللہ کے ذمے قرض ہے ، اور اللہ اسے نہ صرف یہ کہ کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس دے گا بلکہ اپنی طرف سے مزید اجر بھی عنایت فرمائے گا۔

آخرت میں نور انہی اہل ایمان کو نصیب ہو گا جنہوں نے راہ خدا میں اپنا مال خرچ کیا ہو۔ رہے وہ منافق جو دنیا میں اپنے ہی مفاد کو دیکھتے رہے اور جنہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں رہی کہ حق غالب ہوتا ہے یا باطل، وہ خواہ دنیا کی اس زندگی میں مومنوں کے ساتھ ملے جلے رہے ہوں ، مگر آخرت میں ان کو مومنوں سے الگ کر دیا جائے گا، نور سے وہ محروم ہوں گے اور ان کا حشر کافروں کے ساتھ ہو گا۔

مسلمانوں کو ان اہل کتاب کی طرح نہ ہو جاتا چاہیے جن کی عمریں دنیا پرستی میں بیت گئی ہیں اور جن کے دل زمانہ دراز کی غفلتوں سے پتھر ہو گئے ہیں۔ وہ مومن ہی کیا جس کا دل خدا کے ذکر سے نہ پگھلے اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے نہ جھکے ۔

اللہ کے نزدیک صدیق اور شہید صرف وہ اہل ایمان ہیں جو اپنا مال کسی جذبہ ریا کے بغیر صدق دل سے اس کی راہ میں صرف کرتے ہیں ۔

دنیا کی زندگی محض چند روز کی بہار اور ایک متاع غرور ہے ۔ یہاں کا کھیل کود، یہاں کی دلچسپیاں ،یہاں کی آرائش و زیبائش، یہاں کی بڑائیوں پر فخر، اور یہاں کا دھن و دولت، جس میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوششیں کرتے ہیں ، سب کچھ نا پائدار ہے ۔ اس کی مثال اس کھیتی کی سی ہے جو پہلے سر سبز ہوتی ہے ، پھر زرد پڑ جاتی ہے اور آخر کار ٹھیس بن کر رہ جاتی ہے ۔ پائیدار زندگی دراصل آخرت کی زندگی ہے جہاں بڑے نتائج نکلنے والے ہیں ۔ تمہیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنی ہے تو یہ کوشش جنت کی طرف دوڑنے میں صرف کرو۔

دنیا میں راحت اور مصیبت جو بھی آتی ہے اللہ کے پہلے ہوئے فیصلے کے مطابق آتی ہے ۔ مومن کا کردار یہ ہونا چاہیے کہ مصیبت آئے تو ہمت نہ ہار بیٹھے ، اور راحت آئے تو اترا نہ جائے۔ یہ تو ایک منافق اور کافر کا کردار ہے کہ اللہ اس کو نعمت بخشے تو وہ اپنی جگہ پھول جائے، فخر جتانے لگے ، اور اسی نعمت دینے والے خدا کے کام میں خرچ کرتے ہوئے خود بھی تنگ دلی دکھائے اور دوسروں کو بھی بخل کرنے کا مشورہ دے ۔

اللہ نے اپنے رسول کھلی کھلی نشانیوں اور کتاب اور میزان عدل کا سر نیچا کرنے کے لیے طاقت استعمال کی کائے۔ اس طرح اللہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ انسانوں میں سے کون لگ ایسے نکلتے ہیں جو اس کے این کی حمایت و نصرت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اس کی خاطر جان لڑا دیں ۔ یہ مواقع اللہ نے تمہاری اپنی ہی ترقی و سرفرازی کے لیے پیدا کیے ہیں ، سرنہ اللہ اپنے کام کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے انبیاء آتے رہے جن کی دعوت سے کچھ لوگ راہ راست پر آئے اور اکثر فاسق بنے رہے ۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام آئے جن کی تعلیم سے لوگوں میں بہت سی اخلاقی خوبیاں پیدا ہوئیں ، مگر ان کی امت نے رہبانیت کی بدعت اختیار کر لی۔ اب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا ہے ۔ ان پر جو لوگ ایمان لائیں گے اور خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کریں گے ، اللہ ان کو اپنی رحمت کا دہرا حصہ دے گا اور انہیں وہ جور بخشے گا جس سے دنیا کی زندگی میں وہ ہر ہر قدم پر ٹیڑھے راستوں کے درمیان سیدھی راہ صاف دیکھ کر چل سکیں گے ۔ اہل کتاب چاہے اپنے آپ کو اللہ کے فضل کا ٹھیکہ دار سمجھتے رہیں ، مگر اللہ کا فضل اس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے ، اسے اختیار ہے جسے چاہے اپنے فضل سے نواز دے ۔ یہ ہے ان مضامین کا خلاصہ جو اس سورت میں ایک ترتیب کے ساتھ مسلسل بیان ہوئے ہیں ۔