مدینہ
سورہ An-Nisa

آیات

176

وحی کی جگہ

مدینہ

زمانہ ٴنزول اور اجزائے مضمون:

یہ سُورہ متعدّد خطبوں پر مشتمل ہے جو غالباً سن ۳ ہجری کے اواخر سے لے کر سن ۴ ہجری کے اواخر یا سن ۵ ہجری کے اوائل تک مختلف اوقات میں نازل ہوئے ہیں۔ اگرچہ یہ تعیّن کرنا مشکل ہے کہ کس مقام سے کس مقام تک کی آیات ایک سلسلہ ٴ تقریر میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا ٹھیک زمانہٴ نزول کیا ہے ، لیکن بعض احکام اور واقعات کی طرف بعض اشارے ایسے ہیں جن کے نزول کی تاریخیں ہمیں روایات سے معلوم ہوجاتی ہیں اس لیے ان کی مدد سے ہم ان مختلف تقریروں کی ایک سرسری سی حد بندی کر سکتےہیں جن میں یہ احکام اور یہ اشارے واقع ہوئے ہیں۔

مثلاً ہمیں معلوم ہے کہ وراثت کی تقسیم اور یتیموں کے حقوق کے متعلق ہدایات جنگِ اُحد کے بعد نازل ہوئی تھیں جب کہ مسلمانوں کے ستّر آدمی شہید ہو گئے تھے اور مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں اس حادثے کی وجہ سے بہت سے گھر وں میں یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ شہداء کی میراث کس طرح تقسیم  کی جائے اور جو یتیم بچّے اُنہوں نے چھوڑے ہیں ، اُن کے مفاد کا تحفظ کیسے ہو۔ اس بنا پر ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ ابتدائی چار رکوع اور پانچویں رکوع کی پہلی تین آیتیں اسی زمانہ میں نازل ہوئی ہوں گی۔

روایات میں صلوٰةِ خوف ( عین حالتِ جنگ میں نماز پڑھنے) کا ذکر ہمیں غزوہٴ ذات الرِقاع میں ملتا ہے جو سن ۴ ہجری میں ہوا۔ اس لیے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اسی کے لگ بھگ زمانہ میں وہ خطبہ نازل ہوا ہو گا جس میں اس نماز کی ترکیب بیان کی گئی ہے (رکوع ۱۵)۔

مدینہ سے بنی نَضِیر کا اخراج ربیع الاول سن ۴ ہجری میں ہوا اس  لیے غالب گمان یہ ہے کہ وہ خطبہ اس سے پہلے قریبی زمانہ ہی میں نازل ہوا ہوگا جس میں یہودیوں کو آخری تنبیہ کی گئی ہے کہ ” ایمان لے آ ؤ قبل  اس کے کہ ہم چہرے بگاڑ کر پیچھے پھیر دیں“۔

پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کی اجازت غزوہٴ بنی المُصْطَلِق کے موقع پر دی گئی تھی جو سن ۵ ہجری میں ہوا  اس لیے وہ خطبہ جس میں تیمم کا ذکر ہے اسی سے متصل عہد کا سمجھنا چاہیے (رکوع  ۷)۔

شانِ نزُول:

اِس طرح بحیثیت ِ مجموعی سُورہ کا زمانہٴ نزول معلوم ہو جانے کے بعد ہمیں اس زمانہ کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے تاکہ سُورہ کے مضامین سمجھنے میں اس سے مدد لی جا سکے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اُس وقت جو کام تھا اُسے تین بڑے بڑے شعبوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے : ایک اُس نئی منظم اسلامی سوسائیٹی کا نشو نما جس کی بنا ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ اور اس کے اطراف و جوانب میں پڑ چکی تھی اور جس میں جاہلیت کے پُرانے طریقوں کو مٹا کر اخلاق ، تمدّن، معاشرت ، معیشت اور تدبیر مملکت کے نئے اُصُول رائج کیے جارہے تھے۔ دُوسرے اُس کشمکش کا مقابلہ جو مشرکینِ عرب، یہودی قبائل اور منافقین کی مخالف ِ اصلاح طاقتوں کے ساتھ پوری شدّت سے جاری تھی۔ تیسرے اسلام کی دعوت کو اِن مزاحم طاقتوں کے علی الرغم پھیلانا اور مزید دلوں اور دماغوں کو مسخّر کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس موقع پر جتنے خطبے نازل کیے گئے وہ سب انہی تین شعبوں سے متعلق تھے۔

اسلامی سوسائیٹی کی تنظیم کے لیے سُورہٴ بقرہ میں جو ہدایات دی گئی تھیں ، اب یہ سوسائیٹی ان سے زائد ہدایات کی طالب تھی ، اس لیے سُورہٴ نساء کے اِن خطبوں میں زیادہ تفصیل کے ساتھ بتایا گیا کہ مسلمان اپنی اجتماعی زندگی کو اسلام کے  طریق پر کس طرح درست کریں۔ خاندان کی تنظیم کے اُصُول بتائے گئے۔ نکاح پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ معاشرت میں عورت اور مرد کے تعلقات کی حد بندی کی گئی۔ یتیموں کے حقوق معیّن کیے گئے۔ وراثت کی تقسیم کا ضابطہ مقرر کیا گیا۔ معاشی معاملات کی درستی کے متعلق ہدایات دی گئیں۔ خانگی جھگڑوں کی اصلاح کا طریقہ سکھایا گیا۔ تعزیری قانون کی بنا  ڈالی گئی۔ شراب نوشی پر پابندی عائد کی گئی۔ طہارت و پاکیزگی کے احکام دیے گئے۔ مسلمانوں کو بتایا گیا کہ ایک صالح انسان کا طرزِ عمل خدا اور بندوں کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے اندر جماعتی نظم و ضبط (ڈسپلن) قائم کرنے کے متعلق ہدایات دی گئیں۔ اہلِ کتاب کے اخلاقی و مذہبی رویّہ پر تبصرہ کر کے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ اپنی اِن پیش رَو اُمتوں کے نقشِ قدم پر چلنے سے پرہیز کریں۔ منافقین کے طرزِ عمل پر تنقید کر کے سچی ایمانداری کے مقتضیا ت واضح کیے گئے۔ اور ایمان و نفاق کے امتیازی اوصاف کو بالکل نمایاں کر کے رکھ دیا گیا۔

مخالفِ اصلاح طاقتوں سے جو کشمکش برپا تھی اُس نے جنگِ اُحد کے بعد زیادہ نازک صُورت اختیار کر لی تھی۔ اُحد کی شکست نے اطراف و نواح کے مشرک قبائل ، یہُودی ہمسایوں، اور گھر کے منافقوں کی ہمتیں بہت بڑھا دی تھیں اور مسلمان ہر طرف سے خطرات میں گھِر گئے تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ایک طرف پُر جوش خطبوں کے ذریعہ سے مسلمانوں کو مقابلہ کے لیے اُبھارا، اور دُوسری طرف جنگی حالات میں کام کرنے کے لیے انہیں مختلف ضروری ہدایات دیں۔ مدینہ میں منافق اور ضعیف الایمان لوگ ہر قسم کی خوفناک خبریں اُڑا کر بدحواسی پھیلانے کی کوشش کر رہے  تھے۔ حکم دیا گیا کہ ہر ایسی خبر ذمہ دار لوگوں تک پہنچائی جائے اور جب تک وہ کسی خبر کی تحقیق نہ کر لیں اس کی اشاعت کو روکا جائے۔ مسلمانوں کو بار بار غزّوات اور سَرِیّوں میں جانا پڑتا تھا اور اکثر ایسے راستوں سے گزرنا ہوتا تھا جہاں پانی فراہم نہ ہو سکتا تھا۔ اجازت دی گئی کہ پانی نہ ملے تو غسل اور وضو دونوں کے بجائے تیمم کر لیا جائے۔ نیز ایسے حالات میں نماز مختصر کرنے کی بھی اجازت  دےدی گئی اور جہاں خطرہ سر پر ہو وہاں صلوٰ ةِ خوف ادا کرنے کا طریقہ بتایا گیا۔ عرب کے مختلف علاقوں میں جو مسلمان کافر قبیلوں کے درمیان منتشر تھے اور بسا اوقات جنگ کی لپیٹ میں بھی آجاتے تھے اُن کا معاملہ مسلمانوں کے لیے سخت پریشان کُن تھا ۔ اِس مسئلہ میں ایک طرف اسلامی جماعت کو تفصیلی ہدایات دی گئیں اور دُوسری طرف اُن مسلمانوں کو بھی ہجرت پر اُبھارا گیا تاکہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر دارالاسلام میں آجائیں۔

یہُودیوں میں سے بنی نضیر کا رویہ خصُوصیّت کے ساتھ نہایت معاندانہ ہو گیا تھا اور معاہدات کی صریح خلاف ورزی کر کے کھُلم کھُلا دشمنانِ اسلام کا ساتھ دے رہے تھے اور خود مدینہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐ کی جماعت کے خلاف سازشوں کے جال بچھا رہے تھے ۔ ان کی اس روش پر سخت گرفت کی گئی اور انہیں صاف الفاظ میں آخری تنبیہ کر دی گئی۔ اس کے بعد ہی مدینہ سے اُن کا اخراج عمل میں آیا۔

منافقین کے مختلف گروہ مختلف طرزِ عمل رکھتے تھے اور مسلمانوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کس قسم کے منافقوں سے کیا معاملہ کریں۔ ان سب کو الگ الگ طبقوں میں تقسیم کر کے ہر طبقہ کے منافقوں کے متعلق بتا دیا گیا کہ ان کے ساتھ یہ برتا ؤ ہونا چاہیے۔

غیر جانبدار معاہد قبائل کے ساتھ جو رویہ مسلمانوں کا ہونا چاہیے تھا اس کو بھی واضح کیا گیا۔

سب سے زیادہ اہم چیزیہ تھی کہ مسلمان کا اپنا کیریکٹر بے داغ ہو کیونکہ اس کشمکش میں یہ مٹھی بھر جماعت اگر جیت سکتی تھی تو اپنے اخلاقِ فاضلہ ہی کے زور سے جیت سکتی تھی۔ اس لیے مسلمانوں کو بلند ترین اخلاقیات کی تعلیم دی گئی اور جو کمزوری بھی ان کی جماعت میں ظاہر ہوئی اس پر سخت گرفت کی گئی۔

دعوت و تبلیغ کا پہلو بھی اس سُورہ  میں چھُوٹنے نہیں پایا ہے ۔ جاہلیّت کے مقابلہ میں اسلام جس اخلاقی و تمدّنی اصلاح کی طرف  دنیا کو بُلا رہا تھا ، اس کی توضیح کرنے کے علاوہ یہُودیوں، عیسائیوں اور مشرکین، تینوں گروہوں کے غلط مذہبی تصوّرات اور غلط اخلاق و اعمال پر اس سُورہ میں تنقید کر کے ان کو دینِ حق کی طرف دعوت دی گئی ہے۔