مکہ
سورہ Al-Infitar

آیات

19

وحی کی جگہ

مکہ

نام :

پہلی ہی آیت کے لفظ

اِنْفَطَرَتْ

سے ماخوذ ہے۔ اِنفِطار مصدر ہے جس کے معنی پھٹ جانے کے ہیں۔ اس نام کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہےجس میں آسمان پھٹ جانے کا ذکر آیا ہے۔

زمانۂ نزول :

 

اس کا اور سورہ تکویر کا مضمون ایک دوسرے سے نہایت مشابہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں سورتیں قریب قریب ایک ہی زمانے میں نازل ہوئی ہیں۔

موضوع اور مضمون:

اس کاموضوع  آخرت ہے۔ مُسند احمد، ترمذی، ابن المُنذر، طَبرانی، حاکم اور ابن مردُویہ کی روایت ہے کہ حضرت عبد اللہؓ بن عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان کیا:

مَنْ سَرَّہٗ اَن ینظر الیٰ یوم القیمٰۃ کانہ رأی عین فلیقرأ اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ، وَاِذَ السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ، وَاِذَ السَّمَآءُ انْشَقَّتْ۔

"جو شخص چاہتا ہو کہ روز قیامت کو اِس طرح دیکھ لے جیسے آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے تو وہ سورہ تکویر اور سورہ اِنفِطار، اور سورہ انشقاق کو پڑھ لے"۔

          اس میں سب سے پہلے روزِ قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ پیش آجائیگا تو ہر شخص کے سامنے اس کا کیا دھرا سب آجائے گا۔ اس کے بعد انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ جس رب نے تجھ کو وجود بخشا اور جس کے فضل و کرم کی وجہ سے  آج تو سب مخلوقات سے بہتر جسم اور اعضاء لیے پھرتا ہے، اس کے بارے میں یہ دھوکا تجھے کہاں سے لگ گیا کہ وہ صرف کرم ہی کرنے والا ہے، انصاف کرنے والا نہیں ہے؟ اُس کے کرم کے معنی یہ تو نہیں ہیں کہ تو اس کے انصاف سے بے خوف ہوجائے۔ پھر انسان کو خبر دار کیا گیا ہے کہ تو کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہ، تیرا  پورا نامہ اعمال کیا جا رہا ہے۔ اور نہایت معتبر کاتب ہر وقت تیری تمام حرکات و سکنات کو نوٹ کر رہے ہیں۔ آخر میں پورے زور کے ساتھ کہا گیا ہے کہ یقیناً روز جزا برپا ہونے والا ہے جس میں نیک لوگوں کو جنّت کا عیش اور بد لوگوں کو جہنم کا عذاب نصیب ہو گا۔اس روز کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا ، فیصلے کے اختیارات بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہونگے۔