آیات
59
وحی کی جگہ
مکہ
آیت نمبر 10 ،
یَوْ مَ تَأ تِی السَّمَآ ءُ بِدُ خَانٍ مُّبِینٍکے لفظ دُخان کو اس سورۃ کا عنوان بنایا گیا ہے، یعنی یہ وہ سورۃ ہے جس میں لفظ دخان وارد ہوا ہے۔
اس زمانہ نزول بھی کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوتا ، مگر مضامین کی اندرونی شہادت بتاتی ہے کہ یہ بھی اسی دور میں نازل ہوئی ہے جس میں سورہ زُخْرُف اور اس سے پہلے کی چند سورتیں نازل ہوئی تھیں، البتہ یہ ان سے کچھ متأخّر ہے۔ تاریخی پس منظر یہ ہے کہ جب کفار کی مخالفانہ روش شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ خدایا ، یوسفؑ کے قحط جیسے ایک قحط سے میری مدد فرما ۔ حضورؐ کا خیال یہ تھا کہ جب ان لوگوں پر مصیبت پڑے گی تو انہیں خدا یاد آئے گا اور ان کے دل نصیحت قبول کرنے کے لیے نرم پڑ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور سارے علاقے میں ایسے زور کا قحط پڑا کہ لوگ بلبلا اٹھے۔ آخر کر بعض سرداران قریش ، جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود نے خاص طور پر ابو سفیان کا نام لیا ہے، حضور کے پاس آئے اور آپ سے درخواست کی کہ اپنی قوم کو اس بلا سے نجات دلانے کے لیے اللہ سے دعا کریں۔ یہی موقع ہے جب اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل فرمائی ۔
اس موقع پر کفار مکہ کی فہمائش اور تنبیہ کے لیے جو خطبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا گیا اس کی تمہید چند اہم مباحث پر مشتمل ہے :
اول یہ کہ تم لوگ اس قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف سمجھنے میں غلطی کر رہے ہو۔ یہ کتاب تو اپنی ذات میں خود اس امر کی بیّن شہادت ہے کہ یہ کسی انسان کی نہیں بلکہ خداوند عالم کی کتاب ہے۔دوسرے یہ کہ تم اس کتاب کی قدر و قیمت سمجھنے میں بھی غلطی کر رہے ہو۔ تمہارے نزدیک یہ ایک بلا ہے جو تم پر نازل ہو گئی ہے۔ حالانکہ در حقیقت وہ گھڑی انتہائی مبارک گھڑی تھی جب اللہ تعالیٰ نے سراسر اپنی رحمت کی بنا پر تمہارے ہاں اپنا رسول بھیجنے اور اپنی کتاب نازل کرنے کا فیصلہ فرمایا۔
تیسرے یہ کہ تم اپنی نادانی سے اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہو کہ اس رسول اور اس کتاب سے لڑ کر تم جیت جاؤ گے ۔ حالانکہ اس رسول کی بعثت اور اس کتاب کی تنزیل اس ساعت خاص میں ہوئی ہے جب اللہ تعالیٰ قسمتوں کے فیصلے فرمایا کرتا ہے۔ اور اللہ کے فیصلے بودے نہیں ہوتے کہ جس کا جی چاہے انہیں بدل ڈالے، نہ وہ کسی جہالت و نادانی پر مبنی ہوتے ہیں کہ ان میں غلطی اور خامی کا کوئی احتمال ہو۔ وہ تو اس فرمانروائے کائنات کے پختہ اور اٹل فیصلے ہوتے ہیں جو سمیع و علیم اور حکیم ہے۔ ان سے لڑنا کوئی کھیل نہیں ہے۔چوتھے یہ کہ اللہ کو خود بھی زمین و آسمان اور کائنات کی ہر چیز کا مالک و پروردگار مانتے ہو اور یہ بھی مانتے ہو کہ زندگی و موت اسی کے اختیار میں ہے۔ مگر اس کے باوجود تمہیں دوسروں کو معبود بنانے پر اصرار ہے اور اس کے لیے حجت تمہارے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ باپ دادا کے وقتوں سے یہی کام ہوتا چلا آ رہا ہے ۔ حالانکہ اگر کوئی شخص شعور کے ساتھ یہ یقین رکھتا ہو کہ اللہ ہی مالک و پروردگار اور زندگی و موت کا مختار ہے تو اسے کبھی یہ شبہ تک لاحق نہیں ہو سکتا کہ معبود ہونے کے مستحق اس کے سوا یا اس کے ساتھ دوسرے بھی ہو سکتے ہیں۔ تمہارے باپ دادا نے اگر یہ حماقت کی تھی تو کوئی وجہ نہیں کہ تم بھی آنکھیں بند کر کے اسی کا ارتکاب کرتے چلے جاؤ ۔ حقیقت میں تو ان کا رب بھی اکیلا وہی خدا تھا جو تمہارا رب ہے ، اور انہیں بھی اسی ایک کی بندگی کرنی چاہیے تھی جس کی بندگی تمہیں کرنی چاہیے۔
پانچویں یہ کہ اللہ کی ربوبیت و رحمت کا تقاضا صرف یہی نہیں ہے کہ تمہارا پیٹ پالے بلکہ یہ بھی ہے کہ تمہاری رہنمائی کا انتظام کرے۔ اسی رہنمائی کے لیے اس نے رسول بھیجا ہے اور کتاب نازل کی ہے۔اس تمہید کے بعد اس قحط کے معاملے کو لیا گیا ہے جو اس وقت در پیش تھا۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، یہ قحط نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی استدعا پر آیا تھا، اور حضورؐ نے اس کے لیے دعا اس خیال سےکی تھی کہ مصیبت پڑے گی تو کفار کی اکڑی ہوئی گردنیں ڈھیلی پڑ جائیں گی ، شاید کہ پھر حرف نصیحت ان پر کار گر ہو۔ یہ توقع اس وقت کسی حد تک پوری ہوتی نظر آ رہی تھی، کیونکہ بڑے بڑے ہیکڑ دشمنان حق کال کے مارے پکار اٹھے تھے کہ پروردگار، یہ عذاب ہم پر سے ٹال دے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ اس پر ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظاہرسے فرمایا گیا ہے کہ ایسی مصیبتوں سےیہ لوگ کہاں سبق لینے والے ہیں ، انہوں نے جب اس رسول کی طرف سے منہ موڑ لیا جس کی زندگی سے، جس کے کردار سے اور جس کے کام اور کلام سے علانیہ ہو رہا ہے کہ وہ یقیناً خدا کا رسول ہے، تو اب محض ایک قحط ان کی غفلت کیسے دور کر دے گا۔ دوسرےطرف کفار کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ تم بالکل جھوٹ کہتے ہو کہ یہ عذاب تم پر سے ٹال دیا جائے تو تم ایمان لے آؤ گے ۔ ہم اس عذاب کو ہٹائے دیتے ہیں، ابھی معلوم ہوا جاتا ہے کہ تم اپنے اس وعدے میں کتنے سچے ہو۔ تمہارے سر پر تو شامت کھیل رہی ہے ۔ تم ایک بڑی ضرب مانگ رہے ہو، ہلکی چوٹوں سے تمہارا دماغ درست نہیں ہو گا۔
اسی سلسلے میں آگے چل کر فرعون اور اس کی قوم کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو بھی ٹھیک یہی آزمائش پیش آئی تھی جس سے اب کفار قریش کے سرداروں کو سابقہ پڑا ہے۔ ان کے پاس بھی ایسا ہی ایک معزز رسول آیا تھا۔انہوں نے بھی وہ صریح علامات اور نشانیاں دیکھ لی تھیں جن سے اس کا مامور من اللہ ہونا صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ وہ بھی نشانی پر نشانی دیکھتے چلے گئے مگر اپنی ضد سے باز نہ آئے ۔یہاں تک کہ آخر کار رسول کی جان لینے کے درپے ہو گئے اور نتیجہ وہ کچھ دیکھا جو ہمیشہ کے لیے سامان عبرت بن گیا۔اس کے بعد دوسرا موضوع آخرت کا لیا گیا ہے جس سےکفار مکہ کو شدت کے ساتھ انکار تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم نے کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ اٹھ کر آتے نہیں دیکھا ہے، تم اگر دوسری زندگی کے دعوے میں سچے ہو تا اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو۔ اس کے جواب میں عقیدہ آخرت کی دو دلیلیں مختصر طور پر دی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اس عقیدے کا انکار ہمیشہ اخلاق کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا رہا ہے ۔ دوسرے یہ کہ کائنات کسی کھلنڈرے کا کھلونا نہیں ہے ، بلکہ ایک حکیمانہ نظام ہے ، اور حکیم کا کوئی کام عبث نہیں ہوتا ۔ پھر کفار کے اس مطالبہ کا کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو، یہ جواب دیا گیا ہے کہ یہ کام روز روز ہر ایک کے مطالبہ پر نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے اللہ نے ایک وقت مقرر فرما دیا ہے جب وہ تمام نوع انسانی بیک وقت جمع کرے گا اور اپنی عدالت میں ان کا محاسبہ فرمائے گا۔ اس وقت کی اگر کسی کو فکر کرنی ہو تو کر لے، کیونکہ وہاں کوئی نہ اپنے زور پر بچ سکے گا نہ کسی کے بچائے بچے گا۔
اللہ کی اس عدالت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جو لوگ وہاں مجرم قرار پائیں گے ان کا انجام کیا ہو گا، اور جو وہاں سے کامیاب ہو کر نکلیں گے وہ کیا انعام پائیں گے۔پھر یہ کہہ کر بات ختم کر دی گئی ہے کہ تم لوگوں کو سمجھانے کے لیے یہ قرآن صاف سیدھی زبان میں اور تمہاری اپنی زبان میں نازل کر دیا گیا ہے، اب اگر تم سمجھانے سے نہیں سمجھتے اور انجام بدی دیکھنے پر مصر ہو تو انتظار کو، ہمارا نبی بھی منتظر ہے، جو کچھ ہونا ہے وہ اپنے وقت پر سامنے آ جائے گا۔