آیات
52
وحی کی جگہ
مکہ
اس کا نام سورہ "ن" بھی ہے اور "القلم" بھی۔ دونوں الفاظ سورۃ کے آغاز ہی میں موجود ہیں۔
یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سُورتوں میں سے ہے، مگر اس کے مضمون سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہ اُس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کر چکی تھی۔
اس میں تین مضامین بیان ہوئے ہیں۔ مخالفین کے اعتراضات کا جواب ، اُن کو تنبیہ اور نصیحت ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر و استقامت کی تلقین۔
آغازِ کلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد ہوا ہے کہ یہ کفار تم کو دیوانہ کہتے ہیں، حالانکہ جو کتاب تم پیش کر رہے ہو اور اخلاق کے جس اعلیٰ مرتبے پر تم فائز ہو وہ خود ان کے اس جھوٹ کی تردید کے لیے کافی ہے۔ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب سب ہی دیکھ لیں گے کہ دیوانہ کون تھا اور فرزانہ کون۔ لہٰذا مخالفت کا جو طوفان تمہارے خلاف اٹھایا جا رہا ہے اس کا دباؤ ہر گز قبول نہ کرو۔ دراصل یہ ساری باتیں اِس لیے کی جارہی ہیں کہ تم کسی نہ کسی طرح دب کر ان سے مصالحت(Compromise)
کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔پھر عوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے نام لیے بغیر مخالفین میں سے ایک نمایاں شخص کا کردار پیش کیا گیا ہے جسے اہلِ مکہ خوب جانتے تھے۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ اخلاق بھی سب کے سامنے تھے ، اور ہر دیکھنے والا یہ بھی دیکھ سکتا تھا کہ آپ کی مخالفت میں مکہ کے جو سردار پیش پیش ہیں اُن میں کسی سیرت و کردار کے لوگ شامل ہیں۔
اس کے بعد آیت ۱۷ سے ۲۳ تک ایک باغ والوں کی مثال پیش کی گئی ہے جنہوں نے اللہ سے نعمت پا کر اُس کی نا شکری کی اور اُن کے اندر جو شخص سب سے بہتر تھا اس کی نصیحت بر وقت نہ مانی، آخر کار وہ اُس نعمت سے محروم ہو گئے اور اُن کی آنکھیں اُس وقت کھلیں جب اُن کا سب کچھ بر باد کر چکاتھا۔ یہ مثال دے کر اہلِ مکہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تم بھی اُسی آزمائش میں پڑ گئے ہو جس میں وہ باغ والے پڑے تھے۔ اگر ان کی بات نہ مانوگے تو دنیا میں بھی عذاب بھگتو گے اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ بڑا ہے۔پھر آیت ۳۴ سے ۴۷ تک مسلسل کفار کو فہمائش کی گئی ہے جس میں کہیں تو خطاب براہ راست اُن سے ہے اور کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے دراصل تنبیہ اُن کو کی گئی ہے ۔ اس سلسلہ میں جو باتیں ارشاد ہوئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ آخرت کی بھلائی لازماً اُنہی لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے دنیا میں خدا ترسی کے ساتھ زندگی بسر کی ہے ۔ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں فرمانبرداروں کا انجام وہ ہو جو مجرموں کا ہو نا چاہیے۔ کفار کی یہ غلط فہمی قطعی بے بنیاد ہے کہ خدا اُن کے ساتھ وہ معاملہ کرے گا جو وہ خود اپنے لیے تجویز کرتے ہیں، حالانکہ اِس کے لیے اُنہیں کوئی ضمانت حاصل نہیں ہے ۔جن لوگوں کو دنیا میں خدا کے آگے جھکنے کی دعوت دی جا رہی ہے اور وہ اس سے انکار کرتے ہیں، قیامت کے روز وہ سجدہ کرنا چاہیں گے بھی تو نہ کر سکیں گے اور ذلت کا انجام انہیں دیکھنا پڑیگا۔ قرآن کو جھٹلا کو وہ خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکتے ۔ اُنہیں جو ڈھیل دی جا رہی ہے اس سے وہ دھوکے میں پڑ گئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس تکذیب کے با وجود جب اُن پر عذاب نہیں آرہا ہے تو وہ صحیح راستے پر ہیں، حالانکہ وہ بے خبری میں ہلاکت کی راہ پر چلے جا رہے ہیں۔ اُن کے پاس رسول کی مخالفت کے لیے کوئی معقول وجہ نہیں ہے ، کیونکہ وہ ایک بے غرض مبلغ ہے، اپنی ذات کے لیے اُن سے کچھ نہیں مانگ رہا ہے، اور وہ یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتے کہ اُنہیں اُس کے رسول نہ ہونے اور اُس کی باتوں کے غلط ہونے کا علم حاصل ہے۔
آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اللہ کا فیصلہ آنے تک جو سختیاں بھی تبلیغ دین کی راہ میں پیش آئیں اُن کو صبر کے ساتھ برداشت کرتے چلے جائیں اور اُس بے صبری سے بچیں جو یونس علیہ السلام کے لیے ابتلا کی موجب بنی تھی۔