آیات
43
وحی کی جگہ
مدینہ
آیت نمبر ۱۳ کے فقرے
وَیَسْبِحُ الرَّ عْدُ بَحَمْدِ ہٖ اَالْمَلٰٓئِکَۃُ مِنْ خِیْفَتِہٖکے لفظ الرد کو اس سورۃ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ اس نام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سورۃ میں بادل کی گرج کے مسئلے سے بحث کی گئی ہے، بلکہ یہ صرف علامت کے طور پر یہ ظاہر کرتا ہےکہ یہ وہ سورۃ ہے جس میں لفظ الرعد آیا ہے ، یا جس میں رعد کا ذکر آیاہے۔
رکوع ۴ اور رکوع۶ کے مضامین شہادت دیتے ہیں کہ یہ سورۃ بھی اسی دور کی ہے جس میں سورہ یونس، ہود، اوراَعراف نازل ہوئی ہیں، یعنی زمانۂ قیام مکہ کا آخری دور۔ اندازِ بیان سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے ایک مدت دراز گز ر چکی ہے، مخالفین زِک دینے اور آپ کے مشن کو ناکام کر نے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلتے رہے ہیں، مومنین بار بار تمنائیں کر رہے ہیں کہ کاش کو ئی معجزہ دکھا کر ہی ان لوگوں کو راہِ راست پر لایا جائے، اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سمجھا رہا ہے کہ ایمان کی راہ دکھانے کا یہ طریقہ ہمارے ہاں رائج نہیں ہے اور اگر شمنانِ حق کی رسی دراز کی جا رہی ہے تو یہ ایسی بات نہیں ہے کہ جس سے تم گھبرا اُٹھو۔ پھر آیت ۳۱ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کفار کی ہٹ دھرمی کا ایسا مظاہرہ ہو چکا ہے جس کے بعد یہ کہنا بالکل بجا معلوم ہوتا ہے کہ اگر قبروں سے مردے بھی اُٹھ کر آجائیں تو یہ لوگ نہ مانیں گے بلکہ اس واقعے کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کر ڈالیں گے ۔ ان سب باتوًں سے یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ سورہ مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہو گی۔
”سورۃ کا مدعا پہلے ہی آیت میں پیش کر دیا گیا ہے، یعنی یہ کہ جو کچھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں وہی حق ہے، مگر یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ اسے نہیں مانتے۔ ساری تقریر اسی مرکزی مضمون کے گرد گھومتی ہے۔ اس سلسلے میں بار بار مختلف طریقوں سے توحید ، معاد اور رسالت کی حقانیت ثابت کی گئی ہے ، ان پر ایمان لانے کے اخلاقی و روحانی قوائد سمجھائے گئے ہیں، ان کو نہ ماننے کے نقصانات بتائے گئے ہیں، اور یہ ذہن نشین کیا گیا ہے کہ کفر سراسر ایک حماقت اور جہالت ہے۔ پھر چونکہ اس سارے بیان کا مقصد محض دماغوں کو مطمئن کرنا ہی نہیں ، دلوں کو ایمان کی طرف کھینچنا بھی ہے، اس لیے نرے منطقی استدلال سے کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ ایک ایک دلیل اور ایک ایک شہادت کو پیش کرنے کے بعد ٹھہر کر طرح طرح سے تخویف ، ، ترہیب،ترغیب ، اور مشفقانہ تلقین کی گئی ہے تاکہ نادان لوگوں اپنی گمراہانہ ہٹ دھرمی سے باز آجائیں۔
دورانِ تقریر میں جگہ جگہ مخالفین کے اعتراضات کا ذکر کئے بغیر ان کے جوابات دیے گئے ہیں، اور ان شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں پائے جاتے تھے یا مخالفین کی طرف سے ڈالے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ اہلِ ایمان کو بھی جو کئی برس کی طویل اور سخت جدوجہد کی وجہ سے تھکے جا رہے تھے اور بے چینی کے ساتھ غیبی امداد کے منتظر تھے ، تسلی دی گئی ہے۔