آیات
29
وحی کی جگہ
مکہ
پہلی ہی آیت کے لفظ
کُوِّرَتْسے ماخوذ ہے۔
کُوِّرَتْتکویر سے صیغہ ماضی مجہول ہے جس کے معنی ہیں لپیٹی گئی۔ اس نام سے مراد یہ ہے کہ وہ سورت جس میں لپیٹنے کا ذکر آیاہے۔
مضمون اور اندازِ بیان سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ مکّہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔
اس کے دو موضوع ہیں۔ ایک آخرت، دوسرے رسالت۔
پہلی چھ آیتوں میں قیامت کے پہلے مرحلے کاذکر کیا گیا ہے جب سورج بےنور ہو جائے گا، ستارے بکھر جائیں گے، پہاڑی زمین سے اکھڑ کر اڑنے لگیں گے، لوگوں کو اپنی عزیز ترین چیزوں تک کا ہوش نہ رہیگا، جنگلوں کے جانور بد حواس ہو کر اکھٹے ہو جائی گے اور سمندر بھڑک اٹھیں گے۔ پھر سات آیتوں میں دوسرے مر حلے کا ذکر ہے جب روحیں از سر نو جسموں کے ساتھ جودی جائیں گی، نامہ اعمال کھولے جائیں گے، جرائم کی باز پرس ہوگی، آسمان کے سارے پردے ہٹ جائیں گے اور دوزخ جنّت سب چیزیں نگاہوں کے سامنے عیاں ہو جائیں گی۔ آخرت کا یہ سارا نقشہ کھینچنے کے بعد یہ کہہ کر انسان کو سوچنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے کہ اُس وقت ہر شخص کو خود ہی معلو م ہو جائے گا کہ وہ کیا لے کر آیاہے۔ اس کے بعد رسالت کا مضمون لیا گیا ہے ۔ اس میں اہلِ مکّہ سے کہا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ تمہارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ کسی دیوانے کی بڑ نہیں ہے، نہ کسی شیطان کا ڈالا ہوا وسوسہ ہے، بلکہ خدا کے بھیجے ہوئے ایک بزرگ، عالی مقام اور امانت دار پیغام بر کا بیان ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے آسمان کے اُفق پر دن کی روشنی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اِ س تعلیم سے منہ موڑ کر آخر تم کدھر چلے جا رہے ہو؟