مدینہ
سورہ At-Taghabun

آیات

18

وحی کی جگہ

مدینہ

نام:

آیت نمبر 9 کے فقرے

ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُن

سے ماخوذ ہے۔ یعنی وہ سورۃ جس میں لفظ تغابن آیا ہے۔

زمانۂ نزول:

مقاتل اور کَلْبی کہتے ہیں کہ اس کا کچھ حصہ مکی ہے اور کچھ مدنی۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ ابتدا سے آیت 13 تک مکی ہے اور آیت 14 سے آخر سورۃ تک مدنی۔ مگر مفسرین کی اکثریت پوری سورۃ کو مدنی قرار دیتی ہے۔ اگر چہ اسمیں کوئی اشارہ ایسا نہیں پایا جاتا جس سے اس کا زمانہ نزول متعین کیا جاسکتا ہو، لیکن مضمون کلام پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً یہ مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔ اسی وجہ سے اس میں کچھ رنگ مکی سورتوں کا سا اور کچھ مدنی سورتوں کا سا پایا جاتا ہے۔

موضوع اور مضمون:

  اس سورہ کا موضوع ایمان و طاعت کی دعوت اور اخلاق حسنہ کی تعلیم ہے۔ کلام کی ترتیب یہ ہے کہ پہلی چار آیتوں کا خطاب تمام انسانوں سے ہے ، پھر آیت 5 سے 10 تک ان لوگوں سے خطاب کیا گیا ہے جو قرآن کی دعوت کو نہیں مانتے ، اور اس کے بعد نمبر 11 سے آخر تک کی آیات کا روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اس دعوت کو مانتے ہیں۔

تمام انسانوں کو خطاب کر کے چند مختصر فقروں میں انہیں چار بنیادی حقیقتوں سے آگاہ  کیا گیا ہے :

اول یہ کہ یہ کائنات، جس میں تم رہتے ہو، بے خدا نہیں ہے بلکہ اس کا خالق اور مالک اور فرمانروا ایک ایسا قادر مطلق خدا ہے جس کے کامل اور بے عیب ہونے کی شہادت اس کائنات کی ہر چیز دے رہی ہے۔

دوسرے یہ کہ یہ کائنات بے مقصد اور بے حکمت نہیں ہے بلکہ اس کے خالق نے اسے سراسر بر حق پیدا کیا ہے۔ یہاں اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ یہ ایک فضول تماشا ہے جو عبث ہی شروع ہوا اور عبث ہی ختم ہو جائے گا۔

تیسرے یہ کہ تمہیں جس بہترین صورت کے ساتھ خدا نے پیدا کیا ہے اور پھر جسطرح کفر و ایمان کا اختیار تم پر چھوڑ دیا ہے ، یہ کوئی لا حاصل اور لایعنی کام نہیں ہے کہ تم خواہ کفر اختیار کرو یا ایمان، دونوں صورتوں میں اس کا کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہو۔ در اصل خدا یہ دیکھ رہا ہے کہ تم اپنے اس اختیار کوکس طرح استعمال کرتے ہو۔

چوتھے یہ کہ تم غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ نہیں ہو۔ آخر کار تمہیں اپنے خالق کی طرف پلٹ کر جانا ہے اور اس ہستی سے تمہیں سابقہ پیش آنا ہے جو کائنات کی ہر چیز سے واقف ہے ، جس سے تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہیں ، جس پر دلوں کے چھپے ہوئے خیالات تک روشن ہیں۔

کائنات اور انسان کی حقیقت کے بارے میں یہ چار بنیادی باتیں بیان کرنے کے بعد کلام کا رخ ان لوگوں کی طرف مڑتا ہے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے ، اور انہیں تاریخ کے اس منظر کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے جو پوری انسانی تاریخ میں مسلسل نظر آتا ہے کہ قوموں پر قومیں اٹھتی ہیں اور بالآخر تباہی سے دوچار ہوتی ہیں۔ انسان اپنی عقل سے اس منظر کی ہزار توجہیں کرتا رہا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ اصل حقیقت بتاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قوموں کی تباہی کے بنیادی اسباب صرف دو تھے :

ایک یہ کہ اس نے جن رسولوں کو ان کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا، ان کی بات ماننے سے انہوں نے انکار کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے بھی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا اور وہ خود ہی اپنے فلسفے گھڑ گھڑ کر ایک گمراہی سے دوسری گمراہی میں بھٹکتی چلی گئیں۔

دوسرے یہ کہ انہوں نے آخرت کے عقیدے کو بھی رد کر دیا اور اپنے زعم میں یہ سمجھ لیا کہ جو کچھ ہے جس یہی دنیا کی زندگی ہے ، اس کے بعد کوئی اور زندگی نہیں ہے جس میں ہی اپنے خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہو۔ اس چیز نے ان کے پورے رویہ زندگی کو بگاڑ کر رکھ دیا اور ان کے اخلاق و کردار کی گندگی اس حد تک بڑھتی چلی گئی کہ آخر کار خدا کے عذاب ہی نے آ کر دنیا کو ان کے وجود سے پاک کیا۔

تاریخ انسانی کے یہ دو سبق آموز حقائق بیان کر کے منکرین حق کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ہوش میں آئیں اور اگر پچھلی قوموں کا سا انجام نہیں دیکھنا چاہتے تو اللہ اور اس کے رسول اور اس نور ہدایت پر ایمان لے آئیں جو اللہ نے قرآن مجید کی صورت میں نازل فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ ان کو خبردار کیا جاتا ہے کہ آخر کار وہ دن آنے والا ہے جب تمام اولین و آخرین ایک جگہ جمع کیے جائیں گے اور تم میں سے ہر ایک کا غبن سب کے سامنے کھل جائےگا۔ پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمام انسانوں کی قسمت کا فیصلہ اسی بنیاد پر کیا جائے گا کہ ایمان و عمل صالح کی راہ کس نے اختیار کی تھی، اور کفر و تکذیب کی رہ پر کون چلا تھا۔ پہلا گروہ ابدی جنت کا حق دار ہو گا اور دوسرے گروہ کے حصے میں دائمی جہنم آئے گی۔

اس کے بعد ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کو مخاطب کر کے چند اہم ہدایات انہیں دی جاتی ہیں :

ایک یہ کہ دنیا میں جو مصیبت بھی آتی ہے ، اللہ کے اذن سے آتی ہے۔ ایسے حالات میں جو شخص ایمان پر ثابت قدم رہے ، اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے ، ورنہ گھبراہٹ یا جھنجلاہٹ میں مبتلا ہو کر جو آدمی ایمان کی راہ سے ہٹ جائے، اس کی مصیبت تو اللہ کے اذن کے بغیر دور نہیں ہو سکتی، البتہ وہ ایک اور مصیبت، جو سب سے بڑی مصیبت ہے ، مول لے لیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا دل اللہ کی ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے۔ '

دوسرے یہ کہ مومن کا کام صرف ایمان لے آنا ہی نہیں ہے بلکہ ایمان لانے کے بعد اسے عملاً اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے۔ اطاعت سے اگر وہ رو گردانی اختیار کرے گا تو اپنے نقصان کا وہ خود ذمہ دار ہو گا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حق پہنچا کر بری الذمہ ہو چکے ہیں۔

تیسرے یہ کہ مومن کا اعتماد اپنی طاقت یا دنیا کی کسی طاقت پر نہیں بلکہ صرف اللہ پر ہونا چاہیے۔

چوتھے یہ کہ مومن کے لیے اس کا مال اور اس کے اہل و عیال ایک بہت بڑی آزمائش ہیں کیونکہ زیادہ تر انہی کی محبت انسان کو ایمان و طاعت کی راہ سے منحرف کرتی ہے۔ اس لیے اہل ایمان کو اپنے اہل و عیال سے ہوشیار رہنا چاہیے کہ وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ ان کے حق میں راہ خدا کے رہزن نہ بننے پائیں ، اور انہیں اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے تاکہ ان کا جنس زر پر ستی کے فتنوں سے محفوظ رہے۔

پانچویں یہ کہ ہر انسان اپنی استطاعت کی حد تک ہی مکلف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کرے۔ البتہ مومن کو جس بات کی کوشش کرنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اپنی حد تک خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرنے میں وہ کوئی کسر اٹھا نہ رکھے اور اس کی گفتار، کردار اور معاملات اس کی اپنی کوتاہی کے باعث حدود اللہ سے متجاوز نہ ہو جائیں۔