آیات
30
وحی کی جگہ
مکہ
پہلے ہی لفظ
وَالْفَجْرکو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
اِس کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اُس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب مکّۂ معظمہ میں اسلام قبول کرنے والوں کے خلاف ظلم کی چکّی چلنی شروع ہو چکی تھی۔ اس بنا پر اہلِ مکّہ کو عاد اور ثمود اور فرعون کے انجام سے خبردار کیا گیا ہے۔
اِس کا موضوع آخرت کی جزا اور سزا کا اثبات ہے جس کا اہلِ مکہ انکار کر رہے تھے۔ اِس مقصد کے لیے جس طرح ترتیب وار استدلال کیا گیا ہے، اس کو اسی ترتیب کے ساتھ غور سے دیکھیے۔
سب سے پہلے فجر اور دس راتوں اور جُفت اور طاق ، اور رخصت ہوتی ہوئی رات کی قسم کھا کر سامعین سے سوال کیا گیا ہے کہ جس بات کا تم انکار کر رہے ہو اس کے برحق ہونے کی شہادت دینے کے لیے کیا یہ چیزیں کافی نہیں ہیں؟ آگے حواشی میں ان چاروں چیزوں کی جو تشریح ہم نے کی ہے اس سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ چیزیں اُس باقاعدگی کی علامت ہیں جو شب و روز کے نظام میں پائی جاتی ہیں ، اور ان کی قسم کھا کر یہ سوال اس معنی میں کیا گیا ہے کہ خدا کے قائم کیے ہوئے اِس حکیمانہ نظام کو دیکھنے کے بعد بھی کیا اِس امر کی شہادت دینے کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ نظام جس خدا نے قائم کیا ہے اُس کی قدرت سے یہ بعید نہیں ہے کہ وہ آخرت برپا کرے، اور اس کی حکمت کا یہ تقاضا ہے کہ انسان سے اس کے اعمال کی باز پُرس کرے ؟اس کے بعد انسانی تاریخ سے استدلال کرتے ہوئے بطورِ مثال عاد اور ثمود اور فرعون کے انجام کو پیش کیا گیا ہے کہ جب وہ حد سے گزر گئے اور زمین میں انہوں نے بہت فساد مچایا تو اللہ کے عذاب کا کوڑا اُن پر برس گیا۔ یہ اِس بات کی علامت ہے کہ کائنات کا نظام کچھ اندھی بہری طاقتیں نہیں چلا رہی ہیں، نہ یہ دنیا کسی چَوپَٹ راجا کی اندھیر نگری ہے ، بلکہ ایک فرمانروائے حکیم و دانا اس پر حکمرانی کر رہا ہے جس کی حکمت اور عدل کا یہ تقاضا خود اس دنیا میں انسانی تاریخ کے اندر مسلسل نظر آتا ہے۔ کہ عقل اور اخلاقی حِس دے کر جس مخلوق کو اس نے یہاں تصرَّف کے اختیارات دیے ہیں اس کا محاسبہ کرے اور اسے جزا اور سزا دے۔
اس کے بعد انسانی معاشرے کی عام اخلاقی حالت کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں عربِ جاہلیت کی حالت تو اُس وقت سب کے سامنے عملًا نمایاں تھی، اور خصوصیت کے ساتھ اس کے دو پہلوؤں پر تنقید کی گئی ہے۔ایکؔلوگوں کا مادّہ پرستانہ نطقۂ نظر جس کی بنا پر وہ اخلاقی بھلائی اور برائی کو نظر انداز کر کے محض دنیا کی دولت اور جاہ و منزلت کے حصول یا فقدان کو عزّت و ذلّت کا معیار قرار دیے بیٹھے تھے اور اس بات کو بھول گئے تھے کہ نہ دولت مندی کوئی انعام ہے ، نہ رزق کی تنگی کوئی سزا، بلکہ اللہ تعالیٰ ان دونوں حالتوں میں انسان کا امتحان لے رہا ہے کہ دولت پا کر وہ کیا رویّہ اختیار کرتا ہے اور تنگد ستی میں مبتلا ہو کر کس روش پر چل پڑتا ہے۔
دوسرےؔ
، لوگوں کا یہ طرزِ عمل کہ یتیم بچہ باپ کے مرتے ہی ان کے ہاں کس مپرسی میں مبتلا ہو جاتا ہے، غریبوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا، جس کا بس چلتا ہے مُردے کی ساری میراث سمیٹ کر بیٹھ جاتا ہے اور کمزور حقداروں کو دَھتا بتا دیتا ہے، اور مال کی حِرص لوگوں کو ایک ایسی نہ بُجھنے والی پیاس کی طرح لگی ہوئی ہے کہ خواہ کتنا ہی مال مل جائے ان کا دل سیر نہیں ہوتا۔ اس تنقید سے مقصود لوگوں کو اس بات کا قائل کرنا ہے کہ دنیا کی زندگی میں جن انسانوں کا یہ طرزِ عمل ہے ان کا محاسبہ آخر کیوں کہ ہو۔پھر کلام کو اس بات پر ختم کیا گیا ہے کہ محاسبہ ہو گا اور ضرور ہو گا اور وہ اس روز ہو گا جب اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہو گی۔ اس وقت جزا و سزا کا انکار کرنے والوں کی سمجھ وہ بات آجائے گی جسے آج وہ سمجھانے سے نہیں مان رہے ہیں، مگر اُس وقت سمجھنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ منکر انسان ہاتھ مَلتا رہ جائے گا کہ کاش میں نے دنیا میں اِس دن کے لیے کوئی سامان کیا ہوتا۔ مگر یہ ندامت اُسے خدا کی سزا سے نہ بچا سکے گی۔ البتہ جن انسانوں نے دنیا میں پورے اطمینانِ قلب کے ساتھ اُس حق کو قبول کر لیا ہو گا جسے آسمانی صحیفے اور خدا کے انبیاء پیش کر رہے تھے، خدا اُن سے راضی ہوگا اور وہ خدا کے عطا کر دہ اجر سے راضی ہوں گے، انہیں دعوت دی جائے گی کہ وہ اپنے ربّ کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہوں اور جنّت میں داخل ہو جائیں۔