آیات
111
وحی کی جگہ
مکہ
آیت ۴ کے فقرے
وَقَضَیْنَآ اِلیٰ بَنِیْٓ اِسْرَآ ئِیْلَ فِی اْلکِتٰبِسے ماخوذ ہے۔ مگر اس میں موضوع بحث بنی اسرائیل میں ہیں، بلکہ یہ نام بھی اکثر قرآنی سورتوں کی طرح صرف علامت کے طور پر رکھا گیا ہے۔
پہلی ہی آیت اس بات کی نشان دہی کر دیتی ہے کہ یہ سورت معراج کے موقع پر نازل ہوئی ہے ۔ معراج کا واقعہ حدیث اور سیرت کی اکثر روایات کے مطابق ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا اس لیے یہ سورت بھی انہی سورتوں میں سے ہے جو مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئیں۔
اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے ١۲ سال گزر چکے تھے۔ آپ کے مخالفین آپ کا راستہ روکنے کے لیے سارے جتن کر چکے تھے۔ مگر ان کی تمام مزاحمتوں کے با وجود آپ کی آواز عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی تھی۔ عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا تھا جس میں دو چار آدمی آپ کی دعوت سے متاثر نہ ہو چکے ہوں ۔ خود مکے میں ایسے مخلص لوگوں کا ایک مختصر جتھا بن چکا تھا جو ہر خطرے کو اس دعوت حق کی کامیابی کے لیے انگیز کرنے کو تیار تھے۔ مدینے میں اوس اور خَزرج کے طاقتور قبیلوں کی بڑی تعداد آپ کی حامی بن چکی تھی۔ اب وہ وقت قریب آلگا تھا جب آپ کو مکے سے مدینے کی طرف منتقل ہو جانے اور منتشر مسلمانوں کو سمیٹ کر اسلام کے اصولوں پر ایک ریاست قائم کردینے کا موقع ملنے والا تھا۔
ان حالات میں معراج پیش آئی، اور واپسی پر یہ پیغام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو سنایا۔اس سورت میں تنبیہ، تفہیم اور تعلیم ، تینوں ایک متناسب انداز میں جمع کر دی گئی ہیں۔
تنبیہ، کفار مکہ کو کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل اور دوسری قوموں کے انجام سے سبق لو اور خدا کی دی ہوئی مہلت کے اندر ، جس کے ختم ہونے کا زمانہ قریب آلگا ہے، سنبھل جاؤ، اور اس دعوت کو قبول کر لو سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے ذیعہ سے پیش کیا جا رہا ہے، ورنہ مٹا دیے جاؤ گے اور تمہاری جگہ دوسرے لوگ زمین پر بسائے جائیں گے۔ نیز ضمناً بنی اسرائیل کو بھی، جو ہجرت کے بعد عنقریب زبانِ وحی کے مخاطب ہونے والے تھے، یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ پہلے جو سزائین تمہیں مل چکی ہیں اُن سے عبرت حاصل کرو اور اب جو موقع تمہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے مل رہا ہے اس سے فائدہ اُٹھاؤ، یہ آخری موقع بھی اگر تم نے کھو دیا اور پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو دردناک انجام سے دوچار ہوگے۔تفہیم کے پہلو میں بڑے دلنشین طریقے سے سمجھا یا گیا ہے کہ انسانی سعادت و شقاوت اور فلاح و اُن شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو ان بنیادی حقیقتوں کے بارے میں کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے۔ اور استدلال کے ساتھ بیچ بیچ میں منکو ین کی جہالتوں پر زجرو توبیخ بھی کی گئی ہے۔
تعلیم کے پہلو میں اخلاق اور تمدن کے وہ بڑے بڑے اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر زندگی کے نظام کو قائم کرنا دعوت محمدی کے پیش نظر تھا۔ یہ گویا اسلام کا منشور تھا جو اسلامی ریاست کے قیام سے ایک سال پہلے اہل عرب کے سامنے پیش کیاگیا تھا ۔ اس میں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ یہ خاکہ ہے جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملک کی اور پھر پوری انسانیت کی زندگی کو تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ان سب باتوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ مشکلات کے اس طوفان میں مضبوطی کے ساتھ ساتھ اپنے موقف پر جمے رہیں اور کفر کے ساتھ مصالحت کا خیا ل تک نہ کریں۔ نیز مسلمانوں کو ، جو کبھی کبھی کفار کے ظلم و ستم اور ان کی کج بحثیوں ، اور ان کے طوفان کذب و افتراء پر بے ساختہ جھنجھلا اُٹھے تھے، تلقین کی گئی ہے کہ پورے صبر وسکون کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہیں اور تبلیغ و اصلاح کے کام میں اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ اس سلسلہ میں اصلاح نفس اور تزکیہ نفس کے لیے اُن کو نماز کا نسخہ بتایا گیا ہے، کہ یہ وہ چیز ہے جو تم کو اُن صفات عالیہ سے متصف کرے گے جس سے راہ ِ حق کے مجاہدوں کو آراستہ ہونا چاہیے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب پنج وقتہ نماز پابندی اوقات کے ساتھ مسلمانوں پر فرض کی گئی۔