آیات
28
وحی کی جگہ
مکہ
”الجن“اس سورہ کا نام بھی ہے اور اس کے مضامین کا عنوان بھی، کیونکہ اس میں جِنوں کے قرآن سُن کر جانے اور اپنی قوم میں اسلام کی تبلیغ کرنے کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیا ن کیا گیا ہے۔
بخاری اور مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند اصحاب کے ساتھ بازارِ عُکاظ تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں نَخلہ کے مقام پر آپ ؐ نے صبح کی نماز پڑھائی، اُس وقت جِنوں کا یک گروہ اُدھر سے گزر رہا تھا، تلاوت کی آواز سُن کر وہ ٹھیر گیا اور غور سے قرآن سنتا رہا۔ اِسی واقعہ کا ذکر اس سورہ میں کیا گیا ہے۔
اکثر مفسرین نے اس روایت کی بنا پر یہ سمجھا ہے کہ یہ حضور ؐ کے مشہور سفر طائف کا واوقعہ ہے جو ہجرت سے تین سال پہلےسن ۱۰ نبوی میں پیش آیا تھا۔ لیکن یہ قیاس متعدد وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ طائف کے اُس سفر میں جِنوں کے قرآن سننے کا جو واقعہ پیش آیا تھا اُس کا قصّہ سورہ اَحقاف آیات ۲۹۔۳۲ میں بیان کیا گیا ہے۔ اُن آیات پر ایک نگاہ ڈالنے ہی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اُس موقع پر جو جن قرآن مجید سُن کر ایمان لائے تھے وہ پہلے سے حضرت موسیٰ اور سابق کتبِ آسمانی پر ایمان رکھتے تھے۔اس کے برعکس اِس سورہ کی آیات۲۔۷ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اِس موقع پر قرآن سننے والے جِن مشرکین اور منکرین آخرت و رسالت میں سے تھے۔ پھر یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ طائف کے اُس سفر کے متعلق ابنِ عباس فرما رہے ہیں کہ اِس میں چند صحابہ آپ کے ساتھ تھے۔ مزید برآں روایات اِس بات پر بھی متفق ہیں کہ اُس سفر میں جِنوں نے قرآن اُس وقت سنا تھا جب حضور ؐ طائف سے مکہ واپس تشریف لاتے ہوئے نخلہ میں ٹھیرے تھے۔ اور اِس سفر میں ابنِ عباس کی روایت کہ مطابق جِنوں کے قرآن سننے کا واقعہ اُس وقت پیش آیا جب آپ مکہ سے عُکاظ تشریف لے جارہے تھے۔ اِن وجوہ سے صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورہ اَحقاف اور سورہ جن میں ایک ہی واقعہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ دو الگ واقعات تھے جو دو مختلف سفروں میں پیش آئے تھے۔جہاں تک سورہ اَحقاف کا تعلق ہے ، اُس میں جس واققعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کے بارے میں روایات متفق ہیں کہ وہ سن ۱۰ نبوی کے سفر طائف میں پیش آیا تھا۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ دوسرا واقعہ کس زمانے میں پیش آیا ، اس کا کوئی جواب ہمیں ابن عباس ؓ کی روایت سے نہیں ملتا ، نہ کسی اور تاریخی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ عُکاظ کے بازار میں کب تشریف لے گئے تھے۔ البتہ اس سورہ کی آیات ۸۔۱۰ پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ نبوت کے ابتدائی دور کا واقعہ ہی ہوسکتا ہے۔اِن آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بِعثت سے پہلے جن عالمِ بالا کی خبریں معلوم کرنے کے لیے آسمان میں سُن گُن لینے کا کوئی نہ کوئی موقع پالیتے تھے ، مگر اس کے بعد یکا یک انہوں نے دیکھا کہ ہر طرف فرشتوں کے سخت پہلے لگ گئے ہیں اور شہابوں کی بارش ہورہی ہے جس کی وجہ سے کہیں اُن کو ایسی جگہ نہیں ملتی جہاں ٹھیر کر وہ کوئی بِھنَک پا سکیں۔ اِ سے اُن کو یہ معلوم کرنے کی فکر لاحق ہوئی کہ زمین میں ایسا کیا واقعہ پیش آیا ہے یا آنے والا ہے جس کے لیے یہ سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ غالباً اُسی وقت سے جنوں کے بہت سے گروہ اِس تلاش میں پھرتے رہے ہوں گے اور اُن میں سے ایک گروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے قرآن سُن کر یہ رائے قائم کی ہوگی کہ یہی وہ چیز ہے جس کی خاطر جنوں پر عالمِ بالا کے تمام دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔
اس سورے کا مطالعہ شروع کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ جِنوں کی حقیقت کیا ہے تا کہ ذہن کسی اُلجھن کے شکارہ نہ ہوں۔ موجودہ زمانے کے بہت سے لوگ اِس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جِن کسی حقیقی چیز کا نام نہیں ہے بلکہ یہ بھی پُرانے زمانے کے اَوہام و خُرافات میں سے ایک بے بنیاد خیا ل ہے ۔ یہ رائے اُنہوں نے کچھ اِ س بنا پر قائم نہیں کی ہے کہ کائنات کی ساری حقیقتوں کو وہ جان چکے ہیں اور اُنہیں یہ معلوم ہو گیا ہے کہ جِن کہیں موجود نہیں ہیں۔ ایسے علم کا دعوٰی وہ خود بھی نہیں کر سکتے ۔ مگر اُنہوں نے بلا دلیل یہ فرض کر لیا ہے کہ کائنات میں بس وہی کچھ موجود ہے جو اُن کو محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ انسان کے محسوسات کا دائرہ اِس عظیم کائنات کی وسعت کے مقابلہ میں وہ نسبت بھی نہیں رکھتا جو سمندر کے مقابلے میں قطرے کی نسبت ہے۔ یہاں جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ محسوس نہیں ہے وہ موجود نہیں ہے، اور جو موجود ہے اسے لازماً محسوس ہونا چاہیے، وہ دراصل خود اپنے ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے ۔ یہ طرزِ فکر اختیا ر کر لیا جائے تو ایک جِن ہی کیا، انسان کسی ایسی حقیقت کو بھی نہیں مان سکتا جو براہِ راست اُس کے تجربے اور مشاہدے میں نہ آتی ہو اور اُس کے لیے خدا تک کا وجود قابلِ تسلیم نہیں ہے کجا کہ وہ کسی اور غیر محسوس حقیقت کا تسلیم کرے۔
مسلمانوں میں سے جو لوگ اِس طرز فکر سے متاثر ہیں، مگر قرآن کا انکار بھی نہیں کر سکتے انہوں نے جِن اور ابلیس اور شیطان کے متعلق قرآن کے صاف صاف بیانات کو طرح طرح کی تاویلات کا تختہ مشق بنا یا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اِس سے مراد کوئی ایسی پوشیدہ مخلوق نہیں ہے جو اپنا ایک مستقل وجود رکھتی ہو، بلکہ کہیں تو اس سے مراد انسان کی اپنی بہیمی قوتیں ہیں جنہیں شیطان کہا گیا ہے، اور کہیں اس سے مراد وحشی اور جنگلی اور پہاڑی قومیں ہیں، اور کہیں اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو چُھپ چُھپ کر قرآن سنا کرتے تھے۔ لیکن قرآن مجید کے ارشادات اس معاملہ میں اس قدر صاف اور صریح ہیں کہ اِن تاویلات کے لیے اُن کے اندر کوئی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہیں ہے۔قرآن میں ایک جگہ نہیں ، بکثرت مقامات پر جن اور انسان کا ذکر اس حیثیت سے کیا گیا ہے کہ یہ دو الگ قسم کی مخلوقات ہیں۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ اعراف، آیت ۳۷۔ہود،۱۱۹۔حٰم السجدہ، آیایت۲۵،۲۹۔ الاحقاف،۱۸۔الذّاریات،۵۶۔الناس،۶۔ اور سورہ رحمان تو پوری کی پوری اس پر ایسی صریح شہادت دیتی ہے کہ جنوں کو انسانوں کی کوئی قسم سمجھنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتی۔
سورہ اعراف،آیت۱۲۔سورہ حجر،آیات۲۶۔۲۷، اور سورہ رحمان،آیات۱۴۔۱۵ میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ انسان کا مادہ تخلیق مٹی ہے اور جِنوں کا مادہ تخلیق آگ۔سورہ حِجر آیت۲۷ میں صراحت کی گئی ہے کہ جن انسان سے پہلے پیدا کیے گئے تھے۔ اسی بات پر قصہ آدم و ابلیس شہادت دیتا ہے جو قرآن میںسات مقامات پر بیان ہوا ہے اور ہر جگہ اُس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق کے وقت ابلیس موجود تھا۔ نیز سورہ کہف آیت۵۰ میں بتایا گیا ہے کہ ابلیس جِنوں میں سے ہے۔
سورہ اعراف آیت ۲۷ میں بالفاظِ صریح یہ کہا گیا ہے کہ جن انسانوں کو دیکھتے ہیں مگر انسان اُن کو نہیں دیکھتے۔سورہ حِجر آیات۱۶۔۱۸، سورہ صافّات، آیات۶۔۱۰، اور سورہ ملک آیت ۵ میں بتا یا گیا ہے کہ جِن اگرچہ عالمِ بالا کی طرف پرواز کر سکتے ہیں ، مگر ایک حدسے آگے نہیں جا سکتے ۔ اُس سے اوپر جانے کی کوشش کریں اور ملاء اعلیٰ کی باتیں سننا چاہیں تو انہیں روک دیا جاتا ہے ۔ چوری چُھپے سُن گُن لیں تو شہاب ثاقب ان کو مار بھگاتے ہیں۔ اِس سے مشرکین عرب کے اِس خیال کی تردید کی گئی ہے کہ جِن غیب کا علم رکھتے ہیں یا خدائی کے اَسرار تک انہیں کوئی رسائی حاصل ہے ۔ اِسی غلط خیال کی تردید سورہ سبا آیت ۱۴ میں بھی کی گئی ہے۔
سورہ بقرہ ، آیات۳۰۔۳۴ اور سورہ کہف آیت۵۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی خلافت اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے اور انسان جِنون سے افضل مخلوق ہیں۔ اگرچہ بعض غیر معمولی طاقتیں جنوں کو بھی بخشی گئی ہیں جن کی ایک مثال ہمیں سورہ نمل آیت ۷ میں ملتی ہے ، لیکن اسی طرح بعض طاقتیں حیوانات کو بھی انسان سے زیادہ ملی ہیں، اور وہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہیں کہ جانوروں کو انسان پر فضیلت حاصل ہے۔قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ جِن انسان کی طرح ایک با اختیار مخلوق ہے اور اُس کو طاعت و معصیت اور کفر و ایمان کا ویسا ہی اختیار دیا گیا ہے جیسا انسان کو دیا گیا ہے ۔ اِس پر ابلیس کا قصہ اور سورہ اَحقاف اور سورہ جن میں بعض جِنوں کے ایمان لانے کا واقعہ صریح دلالت کرتا ہے۔
قرآن میں بیسیوں مقامات پر یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ ابلیس نے تخلیق آدم کے وقت ہی یہ عزم کر لیا تھا کہ وہ نوع انسانی کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گااور اُسی وقت سے شیاطینِ جِن انسان کو گمراہ کرنے کے درپے ہیں، مگر وہ اپس پر مُسلّط ہو کر زبردستی اُس سے کوئی کام کر ا لینے کی طاقت نہیں رکھتے ، بلکہ وہ اُس کے دل میں وَسوَسے ڈالتے ہیں، اُس کو بہکاتے ہیں اور بدی و گمراہی کو اس کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل آیات ملاحظہ ہوں:
ں النساء، ۱۱۷تا ۱۲۰۔الاعراف،ااتا۱۷۔ابراہیم،۲۲۔الحجر۳۰تا۴۲۔النحل،۹۸تا۱۰۰۔بنی اسرائیل،۶۱تا۶۵۔قرآن میں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ مشرکینِ عرب زمانہ جاہلیت میں جِنوں کو خدا کا شریک ٹھیراتے تھے، اُن کی عبادت کرتے تھے، اور اُن کا نسب خدا سے ملاتے تھے۔ ملاحظہ ہو الانعام، آیت ۱۰۰۔سبا، آیات۴تا۴۱۔ الصّٰفّٰت،۱۵۸۔
اِن تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جِن اپنا ایک مستقل خارجی وجود رکھتے ہیں اور وہ انسان سے الگ ایک دوسری ہی نوع کی پوشیدہ مخلوق ہیں۔ اُن کی پُر اسرار صفات کی وجہ سے جاہل لوگوں نے ان کی ہستی اور ان کی طاقتوں کے متعلق بڑے مبالغہ آمیز تصورات قائم کر رکھے ہیں، حتیٰ کہ ان کی پرستش تک کر ڈالی گئی ہے، مگر قرآن نے ان کی اصل حقیقت پوری طرح کھول کر بیان کر دی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں۔اس سورہ میں پہلی آیت سے لے کر آیت ۱۵ تک یہ بتایا گیا ہے کہ جِنوں کے ایک گروہ نے قرآن سُن کر اُس کا کیا اثر لیا اور پھر واپس جا کر اپنی قوم کے دوسرے جِنوں سے کیا کیا باتیں کہیں۔ اِس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اُن کی ساری گفتگو نقل نہیں کی ہے، بلکہ صرف وہ خاص خاص باتیں نقل فرمائی ہیں جو قابلِ ذکر تھیں۔ اسی لیے طرزِ بیان ایک مسلسل گفتگو کا سا نہیں ہے، بلکہ اُن کے مختلف فقروں کو اِس طرح نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نےیہ کہا اور یہ کہا۔جِنوں کی زبان سے نکلے ہوئے اِن فقروں کو اگر آدمی بغور پڑھے تو بآسانی یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اُن کے ایمان لانے کے اِس واقعے اور اپنی قوم کے ساتھ اُن کی اِس گفتگو کا ذکر قرآن میں کس غرض کے لیے کیا گیا ہے۔ ہم نے اپنے حواشی میں ان کے اقوال کی جو تشریحات کی ہیں وہ اس کا مقصد سمجھنے میں مزید مددگار ہوں گی۔
اس کے بعد آیت ۱۶ سے ۱۸ تک لوگوں کو فہمائش کی گئی ہے کہ وہ شرک سے باز آجائیں اور راہِ راست پر ثابت قدمی کے ساتھ چلیں تو ان پر نعمتوں کی بارش ہوگی ورنہ اللہ کی بھیجی ہوئی نصیحت سے مُنہ موڑنے کا انجام یہ ہو گا کہ وہ سخت عذاب سے دو چار ہونگے۔ پھر آیت ۱۹ سے ۲۳ تک کفارِ مکّہ کو اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ جب اللہ کا رسول دعوت الی اللہ کی آواز بلند کرتا ہے تو وہ اِس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، حالانکہ رسول کا کام صرف اللہ کے پیغامات پہنچا دینا ہے۔ پھرآیات۲۴۔۲۵ میں کفار کو متنبہ کیا گیا ہے کہ آج وہ رسول کو بے یاومددگار دیکھ کر اسے دبا لینے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ایک وقت آئے گا جب انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اصل میں بے یار و مدد گار کون ہے۔ وہ وقت دور ہے یا قریب، رسول کو اس کا علم نہیں ہے، مگر بہرحال اسے آنا ضرور ہے۔ آخر میں لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ رسول کو صرف وہ علم حاصل ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ اسے دینا چاہتا ہے۔ یہ علم اُن امور سے متعلق ہوتا ہے جو فرائض رسالت کی انجام دہی کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ اور یہ علم ایسے محفوظ طریقہ سے دیا جاتا ہے جس میں کسی بیرونی مداخلت کا امکان نہیں ہوتا۔