مدینہ
سورہ At-Talaq

آیات

12

وحی کی جگہ

مدینہ

نام :

اس سورہ کا نام ہی الطلاق نہیں ہے ، بلکہ یہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے ، کیونکہ اس طلاق ہی کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اسے سورۃ النساء القصری بھی کہا ہے، یعنی چھوٹی سورہ نساء۔

زمانۂ نزول :

 حضرت عبداللہ بن مسعودؓ صراحت فرمائی ہے ، اور سورہ کے مضمون کی اندرونی شہادت بھی یہی ظاہر کرتی ہے کہ اس کا نزول لازماً سورہ بقرہ کی ان آیات کے بعد ہوا ہے جن میں طلاق پہلی مرتبہ دیئے گئے تھے ۔ اگر چہ یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ اس کا زمانہ نزول کیا ہے لیکن بہر حال روایات سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ جب سورہ بقرہ کے احکام کو سمجھنے میں لوگ غلطیاں کرنے لگے ، اور عملاً بھی ان سے غلطیوں کا صدور ہونے لگا، تب اللہ تعالی نے ان کی اصلاح کے لئے یہ ہدایت نازل فرمائیں۔

موضوع اور مضمون:

اس سورہ کے احکام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان ہدایات کو پھر سے ذہن میں تازہ کر لیا جائے جو طلاق اور عدت کے متعلق اس سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہو چکی ہیں:

         اَطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَکٌ  بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسِانٍ

(البقرہ۔ 229)

         

’’طلاق دو بار ہے ، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے  رخصت کر دیا جائے ‘‘         وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْءٍ ۔۔۔۔۔ وَبُعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْا اِصْلَاحاً

(البقرہ۔ 228 )۔

         

’’ اور مطلقہ عورتیں (طلاق کے بعد ) تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں۔۔۔۔۔۔۔اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو (اپنی زوجیت میں ) واپس لے لینے کے حق دار ہیں اگر وہ اصلاح پر آمادہ ہوں‘‘۔          فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتٰی تَنْکِحَ زَوْجاً  غَیْرَہٗ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(البقرہ۔ 130)۔

         

’’پھر اگر وہ (تیسری بار) اس کو طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی یہاں تک کہ اس عورت کا نکاح کسی اور سے ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔          اِذٰا نَکَحْتُمُ الْمُؤٰمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْھِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَھَا

(الاحزاب۔ 49)۔

         

’’ جب تم مومن عورتوں سے نکا ح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو‘‘۔          وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجاً یَّتَبَّرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرِ وَّ عَشْراً

(البقرہ۔234)۔

         

’’ اور تم میں سے جو لوگ مر جائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں  چار مہینے دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں‘‘۔

ان آیات میں جو قواعد مقرر کیے گئے تھے وہ یہ تھے :

         

1)۔ ایک مرد زیادہ سے زیادہ اپنی بیوی کو تین طلاق دے سکتا ہے ۔          

2)۔ ایک یا دو طلاق دینے کی صورت میں عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق رہتا ہے اور عدت گزر جانے کے بعد وہی مرد و عورت پھر نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، اس کے لیے تحلیل کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ لیکن اگر مرد تین طلاق دے دے تو عدت کے اندر رجوع کا حق ساقط ہو جاتا ہے ، اور دوبارہ نکاح بھی اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک عورت کا نکاح کسی اور مرد سے نہ ہو جائے اور وہ کبھی اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے دے ۔

         

3)۔ مدخولہ عورت، جس کو حیض آتا ہو، اس کی عدت یہ ہے کہ اسے طلاق کے بعد تین مرتبہ حیض آجائے ۔ ایک طلاق یا دو طلاق کی صورت میں اس عدت کے معنی یہ ہیں کہ عورت ابھی تک اس شخص کی زوجیت میں ہے اور وہ عدت کے اندر اس سے رجوع کر سکتا ہے ۔ لیکن اگر مرد تین طلاق دے چکا ہو تو یہ عدت رجوع کی گنجائش کے لیے نہیں  ہے بلکہ صرف اس لیے ہے کہ اس کے ختم ہونے سے پہلے عورت کسی اور شخص سے نکاح نہیں کر سکتی۔          

4)۔ غیر مدخولہ عورت، جسے ہاتھ  لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دی جائے ، اس کے لیے کوئی عدت نہیں ہے ۔ وہ چاہے تو طلاق کے بعد فوراً نکاح کر سکتی ہے ۔

         

5)۔ جس عورت کا شوہر مر جائے اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے ۔

اب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ سورہ طلاق ان قواعد میں سے کسی قاعدے کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے ، بلکہ دو مقاصد کے لیے نازل ہوئی ہے ۔

ایک یہ کہ مرد کو طلاق کا جو اختیار دیا گیا ہے اس استعمال کرنے کے ایسے حکیمانہ طریقے بتائے جائیں جن سے حتی الامکان علیٰحدگی کی نوبت نہ آنے پائے ، اور علیٰحدگی ہو تو بدرجہ آخر ایسی حالت میں ہو جبکہ باہمی موافقت کے سارے امکانات ختم ہو چکے ہوں۔ کیونکہ خدا کی شریعت میں طلاق کی گنجائش صرف ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر رکھی گئی ہے ، ورنہ اللہ تعالیٰ اس بات کو سخت ناپسند فرماتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان جو ازدواجی تعلق قائم ہو چکا ہو وہ پھر کبھی ٹوٹ جائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ مَا احَلَ اللہ شیئاً ابغضَ الیہ من الطلاق۔

’’ اللہ نے کسی ایسی چیز کو حلال نہیں کیا ہے جو طلاق سے بڑھ کر اسے ناپسند ہو‘‘(ابو داؤد)۔ اور 

ابغض الحلال الی اللہ عزّ و جَل الطلاق۔

’’ تمام حلال چیزوں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے ‘‘۔ (ابو داؤد)۔

دوسرا مقصد یہ ہے کہ سورہ بقرہ کے احکام کے بعد جو مزید مسائل جواب طلب باقی رہ گئے تھے ان کا جواب دے کر اسلام کے عائلی قانون کے اس شعبہ کی تکمیل کر دی جائے ۔ اس سلسلے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جن مدخولہ عورتوں کو حیض آنا بند ہو گیا ہو، یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، طلاق کی صورت میں ان کی عدت کیا ہو

گی۔ اور جو عورت حاملہ ہو اسے اگر طلاق دے دی جائے یا اس کا شوہر مر جائے تو اس کی عدت کی مدت کیا ہے ۔ اور مختلف قسم کی مطلقہ عورتوں کے نفقہ اور سکونت کا انتظام کس طرح کیا جائے ۔