آیات
227
وحی کی جگہ
مکہ
آیت 224
وَالشُّعَرَ آءُیَتَّبِعُھُمُ الْغَا وٗ نَ Oسے ماخوذ ہے۔
مضمون ور انداز بیان سے محسوس ہوتا ہے اور روایات اس کی تائید کرتی ہیں کہ اس سورے کا زمانہ نزول مکہ کا دور متوسط ہے۔ ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ پہلے سورہ طٰہٰ نازل ہوئی پھر واقعہ اور اس کے بعد الشعراء (روح المعانی جلد 19 صفحہ 64)۔ اور سورہ طٰہٰ کے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔
تقریر کا پس منظر یہ ہے کہ کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تبلیغ و تذکیر کا مقابلہ پیہم جحود و انکار سے کر رہے تھے اور اس کے لیے طرح طرح کے بہا نے تراشے چلے جاتے تھے۔ کبھی کہتے کہ تم نے ہمیں کوئی نشانی تو دکھائی ہی نہیں ، پھر ہمیں کیسے یقین آئے کہ تم نبی ہو۔ کبھی آپ کو شاعر اور کاہن قرار دے کر آپ کی تعلیم و تلقین کو باتوں میں اڑا دینے کی کوشش کرتے۔ اور کبھی آپ کو شاعر اور کاہن قرار دے کر آپ کی تعلیم و تلقین کو باتوں میں اڑا دینے کی کوشش کرتے۔ اور کبھی یہ کہہ کر آپ کے مشن کا استخفاف کرتے کہ ان کے پیرو یا تو چند نادان نوجوان ہیں ، یا پھر ہمارے معاشرے کے ادنی طبقات کے لوگ، حالانکہ اگر اس تعلیم میں کوئی جان ہوتی تو اشراف قوم اور شیوخ اس کو قبول کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان لوگوں کو معقول دلائل کے ساتھ ان کے عقائد کی غلطی اور توحید و معاد کی صداقت سمجھانے کی کوشش کرتے کرتے تھکے جاتے تھے ، مگر وہ ہٹ دھرمی کی نت نئی صورتیں اختیار کرتے نہ تھکتے تھے۔ یہی چیز آنحضورؐ کے لیے سوہان روح بنی ہوئی تھی اور اس غم میں آپ کی جان گھلی جاتی تھی۔ ان حالات میں یہ سورت نازل ہوئی۔ کلام کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ تم ان کے پےچھ ہی جان کیوں گھلاتے ہو؟ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے کوئی نشانی نہیں دیکھی ہے ، بلکہ اس کی وجہ پہ ہے کہ یہ ہٹ دھرم ہیں ، سمجھانے سے نہیں ماننا چاہتے ، کسی ایسی نشانی کے طالب میں جو زبر دستی ان کی گردنیں جھکا دے ، اور وہ نشانی اپنے وقت پر جب آ جائے گی تو انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ جو بات انہیں سمجھائی جا رہی تھی وہ کیسی برحق تھی۔ اس تمہید کے بعد دسویں رکوع تک جو مضمون مسلسل بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ طالب حق لوگوں کے لیے تو خدا کی زمین پر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر وہ حقیقت کو پہچان سکتے ہیں۔ لیکن ہٹ دھرم لوگ کبھی کسی چیز و دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے ہیں ، نہ آفاق کی نشانیاں دیکھ کر اور نہ انبیاء کے معجزات دیکھ کر یہ وہ تو ہمیشہ اس وقت تک اپنی ضلالت پر جمے رہے ہیں جب تک خدا کے عذاب نے آ کر ان کو گرفت میں نہیں لے لیا ہے۔ اسی مناسبت سے تاریخ کی سات قوموں کے حالات پیش کیے گئے ہیں جنہوں نے اسی ہٹ دھرمی سے کام لیا تھا جس سے کفار مکہ کام لے رہے تھے۔ اور اس تاریخی بیان کے ضمن میں چند باتیں ذہن نشین کرائی گئی ہیں :۔ اول یہ کہ نشانیاں دو طرح کی ہیں۔ ایک قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو خدا کی زمین پر ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں ، جنہیں دیکھ کر ہر صاحب عقل آدمی تحقیق کر سکتا ہے کہ نبی جس چیز کی طرف بلا رہا ہے وہ حق ہے یا نہیں۔ دوسری قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو فرعون اور اسکی قوم نے دیکھیں ، قوم نوح نے دیکھیں ، عاد اور ثمود نے دیکھیں ، قوم لوط اور اصحاب الاَیکہ نے دیکھیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا خود کفار کا اپنا کام ہے کہ وہ کس قسم کی نشانی دیکھا چاہتے ہیں۔ دوم یہ کہ ہر زمانے میں کفار کی ذہنیت ایک سی رہی ہے۔ ان کی حجتیں ایک ہی طرح کی تھیں۔ ان کے اعتراضات یکساں تھے۔ ایمان نہ لانے کے لیے ان کے حیلے اور بہانے یکساں تھے۔ اور آخر کار ان کا انجام بھی یکساں ہی رہا۔ اس کے برعکس ہر زمانے میں انبیاء کی تعلیم ایک تھی۔ ان کی سیرت و اخلاق کا رنگ ایک تھا۔ اپنے مخالفوں کے مقابلے میں ان کی دلیل و حجت کا انداز ایک تھا۔ اور ان سب کے ساتھ اللہ کی رحمت کا معاملہ بھی ایک تھا۔ یہ دونوں نمونے تاریخ میں موجود ہیں۔ کفار خود دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی اپنی تصویر کس نمونے سے ملتی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات میں کس نمونے کی علامات پائی جاتی ہیں۔ تیسری بات جو بار بار دہرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا زبردست، قادر و توانا بھی ہے اور رحیم بھی۔ تاریخ میں اس کے قہر کی مثالیں بھی موجود ہیں اور رحمت کی بھی۔ اب یہ بات لوگوں کو خود ہی طے کرنی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے رحم کا مستحق بناتے ہیں یا قہر کا۔ آخری رکوع میں اس بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم لوگ اگر نشانیاں ہی دیکھنا چاہتے ہو، تو آخر وہ خوفناک نشانیاں دیکھنے پر کیوں اصرار کرتے ہو جو تباہ شدہ قوموں نے دیکھی ہیں۔ اس قرآن کو دیکھو جو تمہاری اپنی زبان میں ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھو۔ ان کے ساتھیوں کو دیکھو۔ کیا یہ کلام کسی شیطان یا جن کا کلام ہو سکتا ہے ؟ کیا اس کلام کا پیش کرنے والا تمہیں کاہن نظر آتا ہے ؟ کیا محمدؐ اور ان کے اصحاب تمہیں ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے شاعر اور ان کے ہم مشرب ہوا کرتے ہیں ؟ ضدّم ضدّا کی بات دوسری ہے ، مگر اپنے دلوں کو ٹٹول کر دیکھو کہ وہ کیا شہادت دیتے ہیں۔ اگر دلوں میں تم خود جانتے ہو کہ کہانت اور شاعری سے اس کا کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے تو پھر یہ بھی جان لو کہ تم ظلم کر رہے ہو اور ظالموں کا سا انجام دیکھ کر رہو گے۔