آیات
15
وحی کی جگہ
مکہ
پہلے ہی لفظ الشمس
کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
مضمون اور اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ بھی مکہ ٔ معظمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے ۔ مگر اس کا نزول اُس زمانے میں ہوا ہے جب مکّہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت خوب زور پکڑ چکی تھی۔
اِس کا موضوع نیکی اور بدی کا فرق سمجھانا اور اُن لوگوں کو بُرے انجام سے ڈرانا ہے جو اس فرق کو سمجھنے سے انکار اور بدی کی راہ چلنے پر اصرار کرتے ہیں۔
مضمون کےلحاظ سے یہ سورۃ دو حصّوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصّہ سورۃ کے آغاز سے شروع ہو کر آیت ۱۰ پر ختم ہوتا ہے ، اور دوسرا حصّہ آیت ۱۱ سے آخر تک چلتا ہے۔ پہلے حصّہ میں تین باتیں سمجھائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح سورج اور چاند، دن اور رات، زمین اور آسمان ایک دوسرے سے مختلف اور اپنے آثار و نتائج میں متضاد ہیں، اسی طرح نیکی اور بدی بھی ایک دوسرے سے مختلف اور اپنے آثار و نتائج میں متضاد ہیں۔ یہ دونوں نہ اپنی شکل میں یکساں ہیں اور نہ ان کے نتائج یکساں ہو سکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے نفسِ انسانی کو جسم ، حواس اور ذہن کی قوتیں دے کر دنیا میں بالکل بے خبر نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ ایک فطری الہام کے ذریعہ سے اُس کے لاشعور میں نیکی اور بدی کا فرق، بھلے اور بُرے کا امتیاز، اور خیر کے خیر اور شر کے شر ہونے کا احساس اُتار دیا ہے۔ تیسرے یہ کہ انسان کے مستقبل کا انحصار اِس پر ہے کہ اس کے اندر تمیز، ارادے اور فیصلے کی جو قوتیں اللہ نے رکھ دی ہیں ان کو استعمال کر کے وہ اپنے نفس کے اچھے اور بُرے رُحجانات میں سے کس کو ابھارتا اور کس کو دباتا ہے۔ اگر وہ اچھے رُحجانات کو ابھارے اور بُرے رُحجانات سے اپنے نفس کو پاک کرے تو فلاح پائے گا۔ اور اس کے برعکس اگر وہ نفس کی اچھائی کو دبائے اور بُرائی کو اُبھارے تو نامراد ہو گا۔
دوسرے حصّے میں قومِ ثمود کی تاریخی نظیر کو پیش کرتے ہوئے رسالت کی اہمیت سمجھائی گئی ہے ۔ رسول دنیا میں اس لیے بھیجا جاتا ہے کہ بھلائی اور بُرائی کا جو الہامی علم اللہ نے انسان کی فطرت میں رکھ دیا ہے وہ بجائے خود انسان کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے ، بلکہ اس کو پوری طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی انسان خیر و شر کے غلط فلسفے اور معیار تجویز کر کر کے گمراہ ہوتا رہا ہے۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے اُس فطری الہام کی مدد کے لیے انبیاء علیہم السلام پر واضح اور صاف صاف وحی نازل فرمائی تاکہ وہ لوگوں کو کھول کر بتائیں کہ نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے۔ ایسے ہی ایک نبی حضرت صالح علیہ السلام قومِ ثمود کی طرف بھیجے گئے تھے۔ مگر وہ اپنے نفس کی بُرائی میں غرق ہو کر اتنی سرکش ہو گئی تھی کہ اُس نے اُن کو جھُٹلا دیا، اور اُس کا منہ مانگا معجزہ جب اُنہوں نے ایک اونٹنی کی شکل میں پیش کیا تو اُن کی تنبیہ کے باوجود اُس قوم کے ایک شریر ترین آدمی نے ساری قوم کی خواہش اور طلب کے مطابق اسے بھی قتل کر دیا۔ اِس کا نتیجہ آخر کار یہ ہوا کہ پوری قوم تباہ کر کے رکھ دی گئی۔ثمود کا یہ قصہ پیش کرتے ہوئے پوری سورہ میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اے قومِ قریش، اگر تم ثمود کی طرح اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاؤ گے تو وہی انجام دیکھو گے جو ثمود نے دیکھا ہے۔ مکّہ میں اُس وقت حالات وہی موجود تھے جو صالح علیہ السلام کے مقابلہ میں قومِ ثمود کے اشرار نے پیدا کر رکھے تھے۔ اس لیے اُن حالات میں یہ قصہ سنا دینا بجائے خود اہلِ مکّہ کو یہ سمجھا دینے کے لیے کافی تھا کہ ثمود کی یہ تاریخی نظیر اُن پر کس طرح چسپاں ہو رہی ہے۔