مدینہ
سورہ Ali 'Imran

آیات

200

وحی کی جگہ

مدینہ

نام:

    اِس سُورت میں ایک مقام”آلِ عمران“ کا ذکر آیا ہے۔ اسی کو علامت کے طور پر اس کا نام قرار دے دیا گیا ہے۔

زمانہ ٴنزول اور اجزائے مضمون:

اِس  میں چار تقریریں شامل ہیں :

پہلی تقریر آغاز ِ سورت سے چوتھے رکوع کی ابتدائی دو آیتوں تک ہے اور وہ غالباً جنگِ بدر کے بعد قریبی زمانے ہی میں نازل ہوئی ہے۔

دُوسری تقریر آیت

 اِنَّ اللہَ ا صْطَفیٰٓ اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰھَیْمَ وَ اٰلَ عِمْرَانَ عَلَے العٰلَمِیْنَ

(اللہ نے آدم اور نوح اور آلِ ابراھیم اور آلِ عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر اپنی رسالت کے کام کے لیے منتخب کیا تھا) سے شروع ہوتی ہے اور چھٹے رکوع کے اختتام پر ختم ہوتی ہے۔ یہ سن ۹ ہجری میں وفدِ نَجران کی آمد کے موقع پر نازل ہوئی ۔

تیسری تقریر ساتویں رکوع کے آغاز سے لے کر بارھویں رکوع کے اختتام تک چلتی ہے اور اس کا زمانہ پہلی تقریر سے متصل ہی معلوم ہوتا ہے۔

چوتھی تقریر تیرھویں رکوع سے ختمِ سورت تک جنگِ اُحد کے بعد نازل ہوئی ہے۔

 خطاب اور مباحث:

اِن مختلف تقریروں کو ملا کر جو چیز ایک مسلسل مضمون بناتی ہے، وہ مقصد و مدّعا اور مرکزی مضمون کی یکسانیت ہے۔ سورت کا خطاب خصُوصیت کے ساتھ دو گروہوں کی طرف ہے: ایک اہلِ کتاب(یہود و نصاریٰ)۔ دُوسرے وہ لوگ جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے  تھے۔

پہلے گروہ کو اُسی طرز پر مزید تبلیغ کی گئی ہے ۔ جس کا سلسلہ سورہٴ بقرہ میں شروع کیا گیا تھا۔ اُن کی اعتقادی گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں پر تنبیہ کرتے ہوئے انھیں بتایا گیا ہے کہ یہ رسول اور یہ قرآن اُسی دین کی طرف بُلا رہا ہے ، جس کی دعوت شروع سے تمام انبیا دیتے چلے آئے ہیں اور جو فطرت اللہ کے مطابق ایک ہی دین حق ہے۔ اس دین کے سیدھے رستہ سے ہٹ کر جو راہیں تم نے اختیار کی ہیں، وہ خود اُن کتابوں کی رُو سے بھی صحیح نہیں ہیں، جن کو تم کتبِ آسمانی تسلیم کرتے ہو۔ لہٰذا اس صداقت کو قبول کرو جس کے صداقت ہونے سے تم خود بھی انکار نہیں کر سکتے۔

دُوسرے گروہ کو، جواب بہترین اُمت ہونے کی حیثیت سے حق کا علمبردار اور دنیا کی اصلاح کا ذمّہ دار بنایا جا چکا ہے، اُسی سلسلے میں مزید ہدایات دی گئی ہیں ، جو سُورہٴ بقرہ میں شروع ہوا تھا۔ انہیں پچھلی اُمتوں کے مذہبی ا اخلاقی زوال کا عبرتناک نقشہ دکھا کر متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر چلنے سے بچیں۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ ایک مصلح جماعت ہونے کی حیثیت سے وہ کس طرح کام کریں اور اُن اہلِ کتاب اور منافق مسلمانوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں، جو خدا کے راستے میں طرح طرح سے رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ انہیں اپنی اُن کمزوریوں کی اصلاح پر بھی متوجہ کیا گیا ہے، جن کا ظہُور جنگِ اُحد کے سلسلہ میں ہو ا تھا۔

اس طرح یہ سورت نہ صرف آپ اپنے مختلف اجزا میں مسلسل و مربوط ہے، بلکہ سُورہٴ بقرہ کے ساتھ بھی اس کا ایسا قریبی تعلق نظر آتا ہے کہ یہ بالکل اس کا تمتمہ معلوم ہوتی ہے اور یہ محسُوس ہوتا ہے کہ اس کا فطری مقام بقرہ سے متصل ہی ہے۔

شانِ نزُول:

 

سُورت کا تاریخی پس منظر یہ ہے :

(١) سُورہٴ بقرہ میں اِس  دین ِ حق پر ایمان لانے والوں کو جن آزمائشوں اور مصائب و مشکلات سے قبل از وقت متنبہ کر دیا گیا تھا، وہ پوری شدّت کے ساتھ پیش آچکی تھیں۔ جنگِ بدر میں اگر اہلِ ایمان کو فتح حاصل ہوئی تھی ، لیکن یہ جنگ گویا بِھڑوں کے چھتّے میں پتھر مارنے کی ہم معنی تھی۔ اس اوّلین مسلَّح مقابلے نے عرب کی اُن سب طاقتوں کو چونکا دیا تھا، جو اس نئی تحریک سے عداوت رکھتی تھیں۔ ہر طرف طوفان کے آثار نمایاں ہو رہے تھے ، مسلمانوں پر ایک دائمی خوف اور بے اطمینانی کی حالت طاری تھی اور ایسا محسُوس ہوتا تھا کہ مدینے کی یہ چھوٹی سی بستی، جس نے گرد و پیش کی ساری دنیا سے لڑائی مول لے لی ہے ، صفحہٴ ہستی سے مٹا ڈالی جائے گی۔  اِ ن حالات کا مدینے کی معاشی حالت پر بھی نہایت بُرا اثر پڑ رہا تھا۔ اوّل تو ایک چھوٹے سے قصبے میں جس کی آبادی چند سو گھروں سے زیادہ نہ تھی، یکایک مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کے آجانے ہی سے معاشی توازن بگڑ چکا تھا۔ اس پر مزید مصیبت اس حالتِ جنگ کی وجہ سے نازل ہو گئی۔

(۲) ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اطراف ِ مدینہ کے یہُودی قبائل کے ساتھ جو معاہدے کیے تھے، ان لوگوں نے اُن معاہدات کا ذرہ برابر پاس نہ کیا۔ جنگِ بدر کے موقع پر ان اہلِ کتاب کی ہمدردیاں توحید و نبوت اور کتاب و آخرت کے ماننے والے مسلمانوں کے بجائے بُت پوجنے والے مشرکین کے ساتھ تھیں۔ بدر کے بعد یہ لوگ کھلّم کھلّا قریش اور دُوسرے قبائل ِ عرب کو مسلمانوں کے خلاف جوش دِلا  دِلا کر  بدلہ لینے پر اُکسانے لگے۔ خصُوصاً بنی نَضِیر کے سردار کَعب بن اشرف نے تو اس سلسلے میں اپنی مخالفانہ کوششوں کو اندھی عداوت، بلکہ کمینہ پن کی حد تک پہنچا دیا۔ اہلِ مدینہ کے ساتھ ان یہودیوں کے ہمسایگی اور دوستی کے جو تعلقات صدیوں سے چلے آرہے تھے، اُن کا پاس و لحاظ بھی انہوں نے اُٹھا دیا۔ آخر کار جب اُن کی شرارتیں اور عہد شکنیاں حد ِ برداشت سے گزر گئیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر  کے چند مہینے بعد بنی قَینُقاع پر، جو ان یہودیوں میں سب سے زیادہ شریر لوگ تھے، حملہ کر دیا  اور اُنہیں اِطرافِ مدینہ سے نکال باہر کیا۔ لیکن اس سے دُوسرے یہودی قبائل کی آتشِ عناداَور زیادہ بھڑک اُٹھی۔ انہوں نے مدینے کے منافق مسلمانوں اور حجاز کے مشرک قبیلوں کے ساتھ  ساز باز کر  کے اسلام اور مسلمانوں کے لیے ہر طرف خطرات ہی خطرات پیدا کر دیے، حتٰی کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے متعلق ہر وقت یہ اندیشہ رہنے لگا کہ نہ معلوم کب آپ ؐ پر قاتلانہ حملہ ہوجائے۔ صحابہ ٴ کرام  اس زمانے میں بالعموم ہتھیار بند سوتے تھے۔ شبخون کے ڈر سے راتوں کو پہرے دیے جاتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اگر تھوڑی دیر کے لیے بھی کہیں نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے تو صحابہ ٴ کرام گھبرا کر آپ ؐ کو ڈھونڈنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے تھے۔

(۳) بد ر کی شکست کے بعد قریش کے دلوں میں آپ ہی انتقام کی آگ بھڑ ک رہی تھی کہ اس پر مزید تیل یہودیوں نے چھڑکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہی سال بعد مکّے سے تین ہزار کا لشکر ِ جرار مدینے پر حملہ آور ہو گیاا ور اُحد کے دامن میں وہ لڑائی پیش آئی ، جو جنگ اُحد کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگ کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایک ہزار آدمی مدینے سے نکلے تھے۔ مگر راستے میں سے تین سو منافق یکایک الگ ہو کر مدینے کی طرف پلٹ گئے۔ اور جو سات سو آدمی آپ ؐ کے ساتھ رہ گئے تھے ، ان میں بھی منافقین  کی ایک چھوٹی سی پارٹی شامل رہی ، جس نے دَورانِ جنگ میں مسلمانوں کے درمیان فتنہ برپا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ پہلا موقع تھا جب معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے اپنے گھر میں اتنے کثیر التعداد مارِ آستین موجود ہیں اور وہ اس طرح باہر کے دُشمنوں کے ساتھ مل کر خود اپنے بھائی بندوں کو نقصان پہنچانے پر تُلے ہوئے ہیں۔

(۴) جنگِ اُحد میں مسلمانوں کو جو شکست ہوئی ، اس میں اگرچہ منافقین کی تدبیروں کا ایک بڑا حصّہ تھا، لیکن اس کے ساتھ مسلمانوں کی اپنی کمزوریوں کا حصّہ بھی کچھ کم نہ تھا اور یہ ایک قدرتی بات تھی کہ ایک خاص طرزِ فکر اور نظامِ اخلاق پر جو جماعت ابھی تازہ تازہ ہی بنی تھی  ، جس کی اخلاقی تربیت ابھی مکمل نہ ہو سکی تھی ، اور جسے اپنے عقیدہ و مسلک کی حمایت میں لڑنے کا یہ دُوسرا ہی موقع پیش آیا تھا، اس کے کام میں بعض کمزوریوں کا ظہور بھی ہوتا۔ اس لیے یہ ضرورت پیش آئی کہ جنگ کے بعد اس جنگ کی پوری سرگزشت پر ایک مفصّل تبصرہ کیا جائے اور اس میں اسلامی نقطہ ٴ نظر سے جو کمزوریاں مسلمانوں کے اندر پائی گئی تھیں ، ان میں سے ایک ایک کی نشان دہی کر کے اس کی اصلاح کے متعلق ہدایات دی جائیں۔ اس سلسلے میں یہ بات نظر میں رکھنے کے لائق ہے کہ اس جنگ پر قرآن کا تبصرہ  اُن تبصروں سے کتنا مختلف ہے، جو دُنیوی جنرل اپنی لڑائیوں کے بعد کیا کرتے ہیں۔