آیات
37
وحی کی جگہ
مکہ
آیت 28 کے فقرے وَتَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس میں لفظ جاثیہ آیا ہے ۔
زمانہ نزول : اس سورۃ کا زمانہ نزول بھی کسی معتبر روایت میں بیان نہیں ہوا ہے۔ مگر اس کے مضامین سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سورہ دُخان کے بعد قریبی زمانے میں نازل ہوئی ہے۔ دونوں سورتوں کے مضامین میں ایسی مشابہت ہے جس سے یہ دونوں توام نظر آتی ہیں۔اس کا موضوع توحید و آخرت کے متعلق کفار مکہ کے شبہات و اعتراضات کا جواب دینا اور اس رویے پر ان کو متنبہ کرنا ہے جو انہوں نے قرآن کی دعوت کے مقابلے میں اختیار کر رکھا تھا۔
کلام کا آغاز توحید کے دلائل سے کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں انسان کے اپنے وجود سے لے کر زمین و آسمان تک ہر طرف پھیلی ہوئی بے شمار نشانیوں کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا ہے کہ تم جدھر بھی نگاہ اٹھا کر دیکھو،ہر چیز اسی توحید کی شہادت دے رہی ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو۔ یہ طرح طرح کے حیوانات، یہ شب و روز، یہ بارشیں اور ان سے اگنے والی نباتات، یہ ہوائیں، اور یہ انسان کی اپنی پیدائش، ان ساری چیزوں کو اگر کوئی شخص آنکھیں کھول کر دیکھے اور کسی تعصب کے بغیر اپنی عقل کو سیدھے طریقہ سے استعمال کر کے ان پر غور کرے تو یہ نشانیاں سے اس امر کا یقین دلانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے، نہ بہت سے خداؤں کی خدائی میں چل رہی ہے، بلکہ ایک ہی خدا نے اسے بنایا ہے، اور وہی اکیلا اس کا مدبر اور فرماں روا ہے۔ البتہ اس شخص کی بات دوسرے ہے جو نہ ماننے کی قسم کھا کر بیٹھ گیا ہو، یا شکوک و شبہات ہی میں پڑے رہنے کا فیصلہ کر چکا ہو۔ اسے دنیا میں کہیں سے بھی یقین و ایمان کی دولت حاصل نہیں ہوسکتی َ آگے چل کر دوسرے رکوع کی ابتدا میں پھر فرمایا گیا ہے کہ انسان اس دنیا میں جتنی چیزوں سے کام لے رہا ہے، اور جو بے حد حساب اشیاء اور قوتیں اس کائنات میں اس کے مفاد کی خدمت کر رہی ہیں، وہ آپ سے آپ کہیں سے نہیں آ گئی ہیں، نہ دیویوں اور دیوتاؤں نے انہیں فراہم کیا ہے، بلکہ وہ ایک ہی خدا ہے جس نے یہ سب کچھ اپنے پاس سے اس کو بخشا اور اس کے لیے مسخر کر دیا ہے۔ کوئی شخص صحیح غور و فکر سے کام لے تو اس کی اپنی عقل ہی پکار اٹھے گی کہ وہی خدا انسان کا محسن ہے اور اسی کا یہ حق ہے کہ انسان اس کا شکر گزار ہو۔ اس کے بعد کفار مکہ کو اس ہٹ دھرمی، استکبار، استہزاء اور اصرار علی الکفر پر سخت ملامت کی گئی ہے جس سے وہ قرآن کی دعوت کا مقابلہ کر رہے تھے، اور انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ قرآن وہی نعمت لے کر آیا ہے جو پہلے بنی اسرائیل کو دی گئی تھی، جس کی بدولت وہ تمام اقوام علام پر فضیلت کے مستحق ہوئے تھے۔ انہوں نے جب اس نعمت کی ناقدری کی اور دین میں اختلاف کر کے اسے کھو دیا، تو اب یہ دولت تمہارے ہاں بھیجی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا ہدایت نامہ ہے جو دین کی صاف شاہراہ انسان کو دکھاتا ہے۔ جو لوگ اپنی جہالت و حماقت سے اس کو رد کریں گے وہ اپنی ہی تباہی کا سامان کریں گے۔ اور خدا کی تائید و رحمت کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو اس کی پیروی قبول کر کے تقویٰ کی روش پر قائم ہو جائیں۔ اسی سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متبعین کو ہدایت کی گئی ہے کہ یہ خدا سے بے خوف لوگ تمہارے ساتھ جو بیہودگیاں کر رہے ہیں ان پر در گزر اور تحمل سے کام لو۔ تم صبر کرو گے تو خدا خود ان سے نمٹے گا اور تمہیں اس صبر کا اجر عطا فرمائے گا۔ پھر عقیدہ آخرت کے متعلق کفار کے جاہلانہ خیالات پر کلام کیا گیا ہے۔وہ کہتے تھے کہ زندگی بس اسی دنیا کی زندگی ہے، اس کے بعد کوئی دوسرے زندگی نہیں ہے۔ ہم گردش ایام سے بس اسی طرح مرتے ہیں جس طرح ایک گھڑی چلتے چلتے رک جائے۔ موت کے بعد کوئی روح باقی نہیں رہتی جسے قبض کیا جاتا ہو اور پھر کسی وقت دوبارہ لا کر انسانی جسم میں پھونک دیا جائے۔ اس چیز کا اگر تمہیں دعویٰ ہے تو ہمارے مرے ہوئے آبا و اجداد کو زندہ کر کے دکھاؤ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے پے در پے چند دلائل ارشاد فرمائے ہیں: ایک یہ کہ تم یہ بات کسی علم کی بنا پر نہیں کہہ رہے ہو بلکہ محض گمان کی بنیاد پر اتنا بڑا حکم لگا بیٹھے ہو۔ کیا فی الواقع تمہیں یہ علم ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے اور روحیں قبض نہیں کی جاتیں بلکہ فنا ہو جاتی ہیں؟ دوسرے یہ کہ تمہارے اس دعوے کی بنیاد زیادہ سے زیادہ بس یہ ہے کہ تم نے کسی مرنے والے کو اٹھ کر دنیا میں آتے نہیں دیکھا ہے۔ کیا یہ بات اتنا بڑا دعویٰ کر دینے کے لیے کافی ہے کہ مرنے والے پھر کبھی نہیں اٹھیں گے؟ کیا تمہارے تجربے اور مشاہدے میں کسی چیز کا نہ آنا یہ معنی رکھتا ہے کہ تمہیں اس چیز کے نہ ہونے کا علم حاصل ہے؟ تیسرے یہ کہ یہ بات سراسر عقل اور انصاف کے خلاف ہے کہ نیک اور بد، فرمانبردار اور نافرمان، ظالم اور مظلوم، آخرت کار سب یکساں کر دیے جائیں، کسی بھلائی کا کوئی اچھا نتیجہ اور کسی برائی کا کوئی برا نتیجہ نہ نکلے، نہ کسی مظلوم کی داد رسی ہو اور نہ کوئی ظالم اپنے کیے کی سزا پائے، بلکہ سب ایک ہی انجام سے دوچار ہوں۔ خدا کی اس کائنات کے متعلق جس نے یہ تصور قائم کیا ہے اس نے بڑا ہی غلط تصور قائم کیا ہے۔ اس تصور کو ظالم اور بد کار لوگ تو اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ وہ اپنے افعال کا برا نتیجہ نہیں دیکھنا چاہتے، لیکن خدا کی یہ خدائی اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ یہ ایک برحق نظام ہے جس میں نیک و بد کو بالآخر یکساں کر دینے کا ظلم ہر گز نہیں ہو سکتا۔ چوتھے یہ کہ انکار آخرت کا عقیدہ اخلاق کے لیے سخت تباہ کن ہے۔ اس کو اختیار وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنے نفس کے بندے بنے ہوئے ہیں، اور اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں بندگیٔ نفس کی کھلی چھوٹ مل جائے۔ پھر جب وہ اس عقیدے کو اختیار کر لیتے ہیں تو یہ انہیں گمراہ سے گمراہ تر کرتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہاں کی اخلاقی حِس بالکل مردہ ہو جاتی ہے اور ہدایت کے تمام دروازے ان کے لیے بند ہو جاتے ہیں۔ یہ دلائل دینے کے بعد اللہ تعالیٰ پورے زور کے ساتھ فرماتا ہے کہ جس طرح تم آپ سے آپ زندہ نہیں ہو گئے ہو، بلکہ ہمارے زندہ کرنے سے زندہ ہوئے ہو، اسی طرح تم آپ سے آپ نہیں مر جاتے، بلکہ ہمارے موت دینے سے مرتے ہو، اور ایک وقت یقیناً ایسا آنا ہے جب تم سب بیک وقت جمع کیے جاؤ گے۔ اس بات کو اگر آج تم اپنی جہالت و نادانی سے نہیں مانتے تو نہ مانو، جب وہ وقت آ جائے گا تو تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اپنے خدا کے حضور پیش ہو اور تمہاری پورا نامہ اعمال بے کم و کاست تیار ہے جو تمہارے ایک ایک کرتوت کی شہادت دے رہا ہے۔ اس وقت تم کو معلوم ہو جائے گا کہ عقیدہ آخرت کا یہ انکار اور اس کا یہ مذاق جو تم اُڑا رہے ہو، تمہیں کس قدر مہنگا پڑا ہے۔