مکہ
سورہ Al-Humazah

آیات

9

وحی کی جگہ

مکہ

نام :

 

 پہلی آیت کے لفظ ھُمَزَہ

کو اس سورے کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول :

  

اس کے مکّی ہونے پر تمام مفسّرین کا اتفاق ہے۔ اور اس کے مضمون اور اندازِ بیان پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی مکّہ کے ابتدائی  دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے۔

موضوع اور مضمون:

 

اِس میں چند ایسی  اخلاقی برائیوں کی مذمت کی گئی ہے جو جاہلیت کے معاشرے میں زرپرست مالداروں کے اندر پائی جاتی تھیں، جنہیں ہر عرب جانتا تھا کہ یہ برائیاں فی الواقع اُس کے معاشرے میں موجود ہیں، اور جن کو سب ہی برا سمجھتے تھے ، کسی کا بھی یہ خیال نہ تھا کہ یہ کوئی خوبیاں ہیں۔ اِس گھناؤنے کردار کو پیش کرنے کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ آخرت میں اُن لوگوں کا کیا انجام ہو گا جن کا یہ کردار ہے۔ یہ دونوں باتیں (یعنی ایک طرف یہ کردار اور دوسری طرف آخرت میں اُس کا یہ انجام) ایسے انداز سے بیان کی گئی ہیں  جس سے سامع کا ذہن خود بخود اِس نتیجے پر پہنچ جائے کہ اِس طرح کے کردار کا یہی انجام ہونا چاہیے ، اور چونکہ دنیا میں ایسے کردار  والوں کو کوئی سزا نہیں ملتی، بلکہ وہ پھلتے پھولتے ہی نظر آتے ہیں، اس لیے آخرت کا برپا ہونا قطعی ناگزیر  ہے۔           اِس سورۃ کو اگر اُن سورتوں کے تَسَلْسُل میں رکھ کر دیکھا جائے جو سُورۂ زِلْزال سے یہاں تک چلی آرہی ہیں تو آدمی بڑی اچھی طر ح یہ سمجھ سکتا ہے کہ مکّہ معظّمہ کے ابتدائی دور میں کس طریقہ سے اسلام کے عقائد اور اُس کی اخلاقی تعلیمات کو لوگوں کے ذہن نشین کیا گیا تھا۔ سورۂ زِلزال میں بتایا گیا کہ آخرت میں انسان کا  پورا نامۂ اعمال اُس کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور کوئی ذرّہ برابر نیکی یا بدی بھی ایسی نہ ہو گی جو اس نے دنیا میں کی ہو اور وہ وہاں اُس کے سامنے نہ آجائے۔ سورۂ عادیات میں اُس لوٹ مار، کُشت و خون اور غارت گری کی طرف اشارہ کیا گیا جو عرب میں ہر طرف برپا تھی، پھر یہ احساس دلانے کے بعد کہ خدا کی دی ہوئی طاقتوں کا یہ استعمال اُس کی بہت بڑی  ناشکری ہے ، لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ معاملہ اِسی دنیا میں ختم نہیں ہو جائے گا ، بلکہ موت کے بعد دوسری زندگی میں تمہارے افعال ہی کی نہیں ، تمہاری نیتوں تک کی جانچ پڑتا  کی جائے گی اور تمہارا ربّ خوب جانتا ہے کہ کون آدمی کس سلوک کا مستحق ہے۔ سورۂ قارعہ میں قیامت کا نقشہ پیش کرنے کے بعدلوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ آخرت میں انسان کے اچھے یا برے انجام کا انحصار اِس پر ہوگا کہ اُس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہے یا ہلکا۔ سورۂ تکاثُر میں اُس مادّہ پرستانہ ذہنیت پر گرفت کی گئی جس کی وجہ سے لوگ مرتے دم تک بس دنیا کے فائدے اور لذّتیں اور عیش و آرام اور جاہ و منزلت زیادہ  سے زیادہ حاصل کرنے اور ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، پھر اِس غفلت کے برے انجام سے آگاہ کر کے لوگوں کو بتایا گیا  کہ یہ دنیا کوئی خوانِ یَغما نہیں ہے کہ اُس تم جتنا اور جس طرح چاہو ہاتھ مارو، بلکہ ایک ایک نعمت جو یہاں تمہیں مل رہی ہے اُس کے لیے تمہیں اپنے ربّ کو جواب دینا ہو گا کہ اسے تم نے کیسے حاصل کیا ، اور  حاصل کر کے اس کو کس طرح استعمال کیا۔ سورۂ عصر میں بالکل دوٹوک طریقے سے بتا دیا گیا کہ نوعِ انسانی کا ایک ایک فرد، ایک ایک گروہ، ایک ایک قوم، حتیٰ کہ پوری دنیائے انسانیت خسارے میں ہے اگر اُس کے افراد  میں ایمان و عمل صالح نہ ہو اور اس کے معاشرے میں حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کا رواجِ عام نہ ہو۔ اِس کے معًا بعد  سورۂ ھُمَزہ آتی ہے جس میں جاہلیت کی سرداری کا ایک نمونہ پیش کر کے لوگوں کے سامنے گویا یہ سوال رکھ دیا گیا کہ یہ کردار آخر خسارے کا موجب کیوں نہ ہو؟