مدینہ
سورہ Al-Hashr

آیات

24

وحی کی جگہ

مدینہ

نام:

دوسری آیت کے فقرے

اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُو ا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِیَارِھِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ

سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ وہ سورۃ ہے جس میں لفظ الحشر آیا ہے۔

زمانۂ نزول:

بخاری و مسلم میں حضرت سعید بن جُبیر کی روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے سور حشر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ غزوہ بنی نضیر کے بارے میں  نازل ہوئی تھی جس طرح سورہ انفال غزوہ بدر کے بارے میں نازل ہوئی۔ حضرت سعید بن جبیر کی دوسری روایت میں بن عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں کہ : قل سورۃ النَّضِیْر  یعنی یوں کہو کہ یہ سورہ نضیر ہے۔ یہی بات مجاہد، قتادہ، زہری، ابن زید، یزید بن رومان، محمد بن اسحاق وغیرہ حضرات سے بھی مروی ہے۔ ان سب کا متفقہ بیان یہ ہے کہ اس میں جن اہل کتاب کے نکالے جانے کا ذکر ہے ان سے مراد نبی النضیر ہی ہیں۔ یزید بن رومان، مجاہد اور محمد بن اسحاق کا قول یہ ہے کہ از اول تا آخر یہ پوری سورۃ اسی غزوہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ یہ غزوہ کب واقع ہوا تھا؟ امام زہری نے اس کے متعلق  عُرہ بن زبیر  کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ یہ جنگ بدر کے چھ مہینے بعد ہوا ہے۔ لیکن ابن سعد، ابن ہشام اور بَلَاذُرِی اسے ربیع الاول 4 ہجری کا واقعہ بتاتے ہیں، اور یہی صحیح ہے۔ کیوں کہ تمام روایات اس امر میں متفق ہیں یہ غزوہ بِئرمعونہ کے سانحہ کے بعد پیش آیا تھا، اور یہ بات بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ بئَر معونہ کا سانحہ جنگ احد کے بعد رو نما ہوا ہے نہ کہ اس سے پہلے۔

تاریخی پس منظر:

 اس سورہ کے مضامین کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مدینہ طیبہ اور حجاز کے یہودیوں کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لی جائے، کیوں کہ اس کے بغیر آدمی ٹھیک ٹھیک یہ نہیں جان سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر کار ان کے مختلف قبائل کے ساتھ جو معاملہ کیا اس کے حقیقی اسباب کیا تھے۔ عرب کے یہودیوں کی کوئی مستند تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ انہوں نے خود اپنی کوئی ایسی تحریر کسی کتاب یا کتبے کی شکل میں نہیں چھوڑی ہے جس سے ان کے ماضی پر کوئی روشنی پڑ سکے۔ اور عرب سے باہر کے یہودی مؤرخین و مصنفین نے ان کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جزیرۃ العرب میں آ کر وہ اپنے بقیہ ابنائے ملت سے بچھڑ گئے تھے، اور دنیا کے یہودی سرے سے ان کو اپنوں میں شمار ہی نہیں کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے عبرانی تہذیب، زبان، حتیٰ کہ نام تک چھوڑ کر عربیت اختیار کر لی تھی۔ حجاز کے آثار قدیمہ میں جو کتبات ملے ہیں ان میں پہلی صدی عیسوی سے قبل یہودیوں کا کوئی نشان نہیں ملتا، اور ان میں بھی صرف چند یہودی نام ہی پائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہود عرب کی تاریخ کا بیشتر انحصار ان زبانی روایات پر ہے جو اہل عرب میں مشہور تھیں، اور ان میں اچھا خاصا حصہ خود یہودیوں کا اپنا پھیلا ہوا تھا۔ حجاز کے یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ سب سے پہلے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آخر عہد میں یہاں آ کر آباد ہوئے تھے۔ اس کا قصہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ حضرت موسیٰؑ نے ایک لشکر یثرب کے علاقے سے عَمالقہ کو نکالنے کے لیے بھیجا تھا اور اسے حکم دیا تھا کہ اس قوم کے کسی شخص کو زندہ نہ چھوڑیں، بنی اسرائیل کے اس لشکر نے یہاں آ کر فرمان نبی کی تعمیل کی، مگر عمالقہ کے  بادشاہ کا ایک لڑکا بڑا خوبصورت جوان تھا، اسے انہوں نے زندہ رہنے دیا اور اس کو ساتھ لیے ہوئے فلسطین واپس پہنچے۔ اس وقت حضرت موسیٰ کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے جانشینوں نے اس بات پر سخت اعتراض کیا کہ ایک عمالیقی کو زندہ چھوڑ دینا نبی کے فرمان اور شریعت موسوی کے احکام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس بنا پر انہوں نے اس لشکر کو اپنی جماعت سے خارج کر دیا، اور اسے مجبوراً یثرب واپس آ کر یہیں بس جانا پڑا (کتاب الاغانی، ج 19، ص 94)۔ اس طرح یہودی گویا اس بات کے مدعی تھے کہ وہ 12 سو برس قبل مسیح سے یہاں آباد ہیں۔ لیکن در حقیقت اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اور اغلب یہ ہے کہ یہودیوں نے یہ افسانہ اس لیے گھڑا تھا کہ اہل عرب پر اپنے قدیم الاصل اور عالی نسب ہونے کی دھونس جمائیں۔ دوسری یہودی مہاجرت، خود یہودیوں کی اپنی روایت کے مطابق 587 قبل مسیح میں ہوئی جبکہ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے بیت المقدس کو تباہ کر کے یہودیوں کو دنیا بھر میں تتر بتر کر دیا تھا۔ عرب کے یہودی کہتے تھے کہ اس زمانے میں ہمارے متعدد قبائل آ کر وادی القریٰ، تیماء اور یثرب میں آباد ہو گئے تھے (فُتُوح البلدان، البالاذری)۔ لیکن اس کا بھی کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ بعید نہیں کہ اس سے بھی وہ اپنی قدامت ثابت کرنا چاہتے ہوں۔ در حقیقت جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب 70 عیسوی میں رومیوں نے فلسطین میں یہودیوں کا قتل عام کیا، اور پھر 132 ء میں انہیں اس سر زمین سے بالکل نکال باہر کیا، اس دور میں  بہت سے یہودی قبائل بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوئے تھے، کیونکہ یہ علاقہ فلسطین کے جنوب میں متصل ہی واقع تھا۔ یہاں آ کر انہوں نے جہاں جہاں چشمے اور سر سبز مقامات دیکھے، وہاں ٹھیر گئے اور پھر رفتہ رفتہ اپنے جوڑ توڑ اور سود خواری کے ذریعہ سے ان پر قبضہ جما لیا۔ ایلہ، مقنا، تبوک، تیماء، وادی القریٰ، خدک، اور خیبر پر ان کا تسلط اسی دور میں قائم ہوا۔ اور بنی قرَیظہ، بنی نضیر، بنی یَہدَل، اور بنی قَینُقَاع  بھی اسی دور میں آ کر یثرب پر قابض ہوئے۔ یثرب میں آباد ہونے والے قبائل میں سے بنی نضیر اور بنی قریظہ زیادہ ممتاز تھے، کیونکہ وہ کاہنوں (Priests) یا (Co hens)کے طبقہ میں سے تھے، انہیں یہودیوں میں عالی نسب مانا جاتا تھا  اور ان کو اپنی ملت میں مذہبی ریاست حاصل تھی۔ یہ لوگ جب مدینہ میں آ کر آباد ہوئے اس وقت کچھ دوسرے عرب قبائل یہاں رہتے تھے جن کو انہوں نے دبا لیا اور عملاً اس سر سبز و شاداب مقام کے مالک بن بیٹھے۔ اس کے تقریباً تین صدی بعد 450ء یا 451 ء میں یمن کے اس سیلاب عظیم کا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سورہ سبا کے دوسرے رکوع میں گزر چکا ہے۔ اس سیلاب کی وجہ سے قوم سبا کے مختلف قبیلے یمن سے نکل کر عرب کے اطراف میں پھیل جانے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے غسانی شام میں، لخمی جبرہ (عراق) میں، بنی خزاعہ جدہ و مکہ کے درمیان، اور اَوس و خزرج یثرب میں جا کر آباد ہوئے۔ یثرب پر چونکہ یہودی چھائے ہوئے تھے، اس لیے انہوں نے اول اول اوس و خزرج کی دال نہ گلنے دی اور یہ دونوں عرب قبیلے چار و ناچار بنجر زمینوں پر بس گے جہاں ان کو قوت الایموت بھی مشکل سے حاصل ہوتا تھا۔ آخر کر ان کے سرداروں میں سے ایک شخص اپنے غسانی بھائیوں سے مدد مانگنے کے لیے شام گیا اور وہاں سے ایک لشکر لا کر اس نے یہودیوں کا زور توڑ دیا۔ اس طرح اوس، و خزرج کو یثرب پر پورا غلبہ حاصل ہو گیا۔ یہودیوں کے دو بڑے قبیلے، بنی نضیر اور بنی قریظہ شہر کے باہر جا کر بسنے پر مجبور  ہو گئے۔ تیسرے قبیلے بنی قَلْینقاع کی چونکہ ان دونوں قبیلوں سے ان بن تھی اس لیے وہ شہر کے اندر ہی مقیم رہا، مگر یہاں رہنے کے لیے اسے قبیلہ خزرج کی پناہ لینی پڑی۔ اور اس کے مقابلہ میں بنی نضیر و بنی قریظہ نے قبیلہ اوس کی پناہ لی تاکہ اطراف یثرب میں امن کے ساتھ رہ سکیں۔ ذیل کے نقشہ سے واضح ہو گا کہ اس نئے انتظام کے ماتحت یثرب اور اس کے نواح میں یہودی بستیاں کہاں کہاں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سے پہلے، آغاز ہجرت تک، حجاز میں عموماً اور یثرب میں خصوصاً یہودیوں کی پوزیشن کے نمایاں خد و خال یہ تھے : زبان، لباس، تہزیب، تمدن، ہر لحاظ سے انہوں نے پوری طرح عربیت کا رنگ اختیار کر لیا تھا، حتیٰ کہ ان کی غالب اکثریت کے نام تک عربی ہو گئے تھے۔ 12 یہودی قبیلے جو حجاز میں آباد ہوئے تھے، ان میں سے بنی زَعُوراء کے سوا کسی قبیلے کا نام عبرانی نہ تھا۔ان کے چند گنے چنے علماء کے سوا کوئی عبرانی جانتا تک نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت کے یہودی شاعروں کا جو کلام ہمیں ملتا ہے ان کی زبان اور خیالات اور مضامین میں شعرائے عرب سے الگ کوئی امتیازی شان نہیں پائی جاتی جو انہیں ممیز کرتی ہو۔ ان کے اور عربوں کے درمیان شادی بیاہ تک کے تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ در حقیقت ان میں اور عام عربوں میں دین کے سوا کوئی فرق باقی نہ رہا تھا۔ لیکن ان ساری باتوں کے باوجود وہ عربوں میں جذب بالکل نہ ہوئے تھے، اور انہوں نے شدت کے ساتھ اپنی یہودی عصبیت برقرار رکھی تھی۔ یہ ظاہری عربیت انہوں نے صرف اس لیے اختیار کی تھی کہ اس کے بغیر وہ عرب میں نہ رہ سکتے تھے۔ ان کی اس عربیت کی وجہ سے مغربی مستشرقین کو یہ دھوکا ہوا ہے کہ شاید یہ بنی اسرائیل نہ تھے بلکہ یہودی مذہب قبول کرنے والے عرب تھے، یا کم از کم ان کی اکثریت عرب یہودیوں پر مشتمل تھی۔ لیکن اس امر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا کہ یہودیوں نے حجاز میں کبھی  کوئی تبلیغی سرگرمی دکھائی ہو، یا ان کے علماء نصرانی پادریوں اور مشنریوں کی طرح اہل عرب کو دین یہود کی طرف دعوت دیتے ہوں۔ اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر اسرائیلیت کا شدید تعصب اور نسلی فخر و غرور پایا جاتا تھا۔ اہل عرب کو وہ اُمّی (Gentiles)کہتے تھے، جس کے معنی صرف ان پڑھ کے نہیں بلکہ وحشی اور جاہل کے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ان امیوں کو وہ انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں جو اسرائیلیوں کے لیے ہیں اور ان کا مال ہر جائز و نا جائز طریقے سے مار کھانا اسرائیلیوں کے لیے حلال و طیب ہے۔ سرداران عرب کے ماسوا، عام عربوں کو وہ اس قابل نہ سمجھتے تھے کہ انہیں دین یہود میں داخل کر کے برابر کا درجہ دے دیں۔ تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، نہ روایات عرب میں ایسی کوئی شہادت ملتی ہے کہ کسی عرب قبیلے یا کسی بڑے خاندان نے یہودیت قبول کی ہو۔ البتہ بعض افراد کا ذکر ضرور ملتا ہے جو یہودی ہو گئے تھے۔ ویسے بھی یہودیوں کو تبلیغ دین کے بجائے صرف اپنے کاروبار سے دلچسپی تھی۔ اسی لیے حجاز میں یہودیت ایک دین کی حیثیت سے نہیں پھیلی بلکہ محض چند اسرائیلی قبیلوں کا سرمایہ  فخر و ناز ہی بنی رہی۔ البتہ یہودی علماء نے تعویذ گنڈوں اور فال گیر اور جادو گری کا کاروبار خوب چمکا رکھا تھا جس کی وجہ سے عربوں پر ان کے ’’ علم‘‘ اور ’’عمل‘‘ کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔   معاشی حیثیت سے ان کی پوزیشن عرب قبائل کی بہ نسبت زیادہ مضبوط تھی۔ چونکہ وہ فلسطین و شام کے زیادہ متمدن علاقوں سے آئے تھے، اس لیے وہ بہت سے ایسے فنون جانتے تھے جو اہل عرب میں رائج نہ تھے۔ اور باہر کی دنیا سے ان کے کاروباری تعلقات بھی تھے۔ ان وجوہ سے یثرب اور بالائی حجاز میں غلے کی در آمد اور یہا سے چھوہاروں کی  برآمد ان کے ہاتھ  میں آگئی تھی۔ مرغ بانی اور ماہی گیری پر بھی زیادہ تر انہی کا قبضہ تھ۔ پارچہ بانی کا کام بھی ان کے ہاں ہوتا تھا۔ جگہ جگہ  میخانے بھی انہوں نے قائم کر رکھے تھے جہاں شام سے شراب لا کر فروخت کی جاتی تھی۔ نبی قینقاع زیادہ تر سنار اور لوہار اور ظروف سازی کا پیشہ کرتے تھے۔ اس سارے بَنَج بیوپار میں یہ یہودی بے تحاشا منافع خوری کرتے تھے۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کاروبار سود خواری کا تھا جس کے جال میں انہوں نے گرد و پیش کی عرب آبادیوں کو پھانس رکھا تھا،اور خاص طور پر عرب قبائل کے شیوخ اور سردار، جنہیں قرض لے لے کر ٹھاٹھ جمانے اور شیخی بگھارنے کی بیماری لگی ہوئی تھی، ان کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے۔  یہ بھاری شرح سود پر قرضے دیتے، اور پھر سود در سود کا چکر چلاتے تھے جس کی گرفت میں آ جانے کے بعد مشکل ہی سے کوئی نکل سکتا تھا۔ اس طرح انہوں نے عربوں کو معاشی حیثیت سے کھوکھلا کر رکھا تھا، مگر اس کا فطری نتیجہ یہ بھی تھا کہ عربوں میں بالعموم ان کے خلاف ایک گہری نفرت پائی جاتی تھی۔ ان کے تجارتی اور مالی مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ عربوں میں کسی کے دوست بن کر کسی سے نہ بگاڑیں اور نہ ان کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لیں۔ لیکن دوسری طرف ان کے مفاد ہی کا تقاضا یہ بھی تھا کہ عربوں کو باہم متحد نہ ہونے دیں، اور انہیں ایک دوسرے سے لڑاتے رہیں، کیونکہ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ جب بھی عرب قبیلے باہم متحد ہوئے، وہ ان بڑی بڑی جائدادوں اور باغات اور سرسبز زمینوں پر انہیں قابض نہ رہنے دیں گے جو انہوں نے اپنی منافع خوری اور سود خواری سے پیدا کی تھیں۔ مزید برآں اپنی حفاظت کے لیے ان کے ہر قبیلے کو کسی نہ کسی طاقت ور عرب قبیلے سے حلیفانہ تعلقات بھی قائم کرنے پڑتے تھے، تاکہ کوئی دوسرا زبردست قبیلہ ان پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ اس بنا پر بارہا انہیں نہ صرف ان عرب قبائل کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لینا پڑتا تھا، بلکہ بسا اوقات ایک یہودی قبیلہ اپنے حلیف عرب قبیلہ کے ساتھ مل کر کسی دوسرے یہودی قبیلے کے خلاف جنگ آزما ہو جاتا تھا جس کے حلیفانہ تعلقات فریق مخالف سے ہوتے تھے۔ یثرب میں بنی قیرظہ اور بنی نضیر اوس کے حلیف تھے اور بنی قینقاع خزرج کے۔ ہجرت سے تھوڑی مدت پہلے اوس اور خزرج کے درمیان جو خونریز لڑائی بُعاث کے مقام پر ہوئی تھی اس میں یہ اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے تھے۔ یہ حالات تھے جب مدینے میں اسلام پہنچا اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کے بعد وہاں ایک اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ آپ نے اس ریاست کو قائم کرتے ہی جو اولین کام کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ اوس اور خزرج اور مہاجرین کو ملا کر ایک برادری بنائی، اور دوسرا یہ تھا کہ اس مسلم معاشرے اور یہودیوں کے درمیان واضح شرائط پر ایک معاہدہ طے کیا جس میں اس امر کی ضمانت دی گئی تھی کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں یہ سب متحدہ دفاع کریں گے۔ اس معاہدے کے چند اہم فقرے یہ ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہود اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں کن امور کی پابندی قبول کی تھی: ان علی الیھود نفقتھم و علی المسلمین نفقتھم، وان بینھم النصر علیٰ من حارب اھل ھٰذہ الصحیفۃ، وان بینہم النصح النصیحۃ والبردون الاٹم، وانہ لم یا ٹم امرؤٌ بحلیفہ، وان الجصر للمظلوم، وان الیھود ینفقون مع المؤمنین مادامو امحاربین، وان یثرب حرام جو فھا لا ھل ھٰذہ الصحیفۃ ………وانہ ما کان بین اھل ھٰذہ الصحیفۃ من حَدَثٍ اوا شتجار یخاف فساعہ فان مردہ الی اللہ عزو جل و الیٰ محمد رسولاللہ ………وانہ لا تجار قریش ولا من نصرھا، وان بینھم النصر علی من دھم یثرب۔ علی کل اناس حصتہم من جانبھم الذی قِبَلَھم۔ (ابن ہشام،ج 2، ص 147 تا 150 ) ’’یہ کہ یہودی اپنا خرچ اٹھائیں گے اور مسلمان اپنا خرچ، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء حملہ آور کے مقابلہ میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں گے۔ اور یہ کہ وہ خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں گے اور ان کے درمیان نیکی و حق رسانی کا تعلق ہو گا نہ کہ گناہ اور زیادتی کا، اور یہ کہ کوئی اپنے حلیف کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا، اور یہ کہ مظلوم کی حمایت کی جائے گی، اور یہ کہ جب تک جنگ رہے یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس کے مصارف اٹھائیں گے، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء پر یثرب میں کسی نوعیت کا فتنہ و فساد کرنا حرام ہے، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء کے درمیان اگر کوئی ایسا قضیہ یا اختلاف رونما ہو جس سے فساد کا خطرہ ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے قانون کے مطابق محمد رسول اللہ کریں گے، …………اور یہ کہ قریش اور اس کے حامیوں کو پناہ نہیں دی جائے گی اور یہ کہ یثرب پر جو بھی حملہ آسر ہو اس کے مقابلے میں شرکاء معاہدہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے ………ہر فریق اپنی جانب کے علاقے کی مدافعت کا ذمہ دار ہو گا۔ یہ ایک قطعی اور واضح معاہدہ تھا جس کی شرائط یہودیوں نے خود قبول کی تھیں۔ لیکن بہت جلدی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاندانہ روش کا اظہار شروع کر دیا اور ان کا عناد روز بروز سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ اس کے بڑے بڑے وجوہ تین تھے۔ ایک یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو محض ایک رئیس قوم دیکھنا چاہتے تھے جو ان کے ساتھ بس ایک سیاسی معاہدہ کر کے رہ جائے اور صرف اپنے گروہ کے دنیوی مفاد سے سروکار رکھے مگر انہوں نے دیکھا کہ آپ تو اللہ اور آخرت اور رسالت اور کتاب  پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں (جس میں کود ان کے اپنے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانا بھی شامل تھا) اور معصیت چھوڑ کر ان احکام الہیٰ کی اطاعت اختیار کرنے اور ان اخلاقی حدود کی پابندی کرنے کی طرف بلا رہے ہیں جن کی طرف خود ان کے انبیاء بھی دنیا کو بلاتے رہے ہیں۔ یہ چیز ان کو سخت ناگوار تھی۔ ان کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ عالمگیر اصولی تحریک اگر چل پڑی تو اس کا سیلاب ان کی جامد مذہبیت اور ان کی نسلی قومیت کو بہا لے جائے گا۔ دوسرے یہ کہ اوس و خزرج اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنتے دیکھ کر، اور یہ دیکھ کر کہ گرد و پیش کے عرب قبائل میں سے بھی جو لوگ اسلام کی اس دعوت کو قبول کر رہے ہیں وہ سب مدینے کی اس اسلامی برادری میں شامل ہو کر ایک ملت بنتے جا رہے ہیں، انہیں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ صدیوں سے اپنی سلامتی اور اپنے مفادات کی ترقی کے لیے انہوں نے عرب قبیلوں میں پھوٹ ڈال کر اپنا الو سیدھا کرنے کی جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی وہ اب اس نئے نظام میں نہ چل سکے گی بلکہ اب ان کو عربوں کی ایک متحدہ طاقت سے سابقہ پیش آئے گا جس کے آگے ان کی چالیں کامیاب نہ ہو سکیں گی۔ تیسرے یہ کہ معاشرے اور تمدن کی جو اصلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کر رہے تھے اس میں کاروبار اور لین دین کے تمام نا جائز طریقوں کا سد باب شامل تھا، اور اب سے بڑھ کر یہ کہ سود کو بھی آپ ناپاک کمائی اور حرام خوری قرار دے رہے تھے جس سے انہیں خطرہ تھا کہ اگر عرب پر آپ کی فرمانروائی قائم ہو گئی تو آپ اسے قانوناً ممنوع کر دیں گے۔ اس میں ان کو اپنی موت نظر آتی تھی۔ ان وجوہ سے انہوں نے حضورؐ کی مخالفت کو اپنا قومی نصب العین بنا لیا۔ آپ کو زک دینے کے لیے کوئی چال، کوئی تدبیر اور کوئی ہتھکنڈا استعمال کرنے میں ان کو ذرہ برابر تامل نہ تھا۔ وہ آپ کے خلاف طرح طرح کی جھوٹی باتیں پھیلاتے تھے تاکہ لوگ آپ سے  بد گمان ہو جائیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کے دلوں میں ہر قسم کے شکوک و شبہات اور وسوسے ڈالتے تھے تاکہ وہ اس دین سے بر گشتہ ہو جائیں۔ خود جھوٹ موٹ کا اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جاتے تھے تاکہ لوگوں میں اسلام اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی جا سکیں۔ فتنے بر پا کرنے کے لیے منافقین سے ساز باز کرتے تھے۔ ہر اس شخص اور گروہ اور قبیلے سے رابطہ پیدا کرتے تھے جو اسلام کا دشمن ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور ان کو آپس میں لڑا دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے تھے۔ اوس اور خزرج کے لوگ خاص طور پر ان کے ہدف تھے جن سے ان کے  مدتہائے دراز کے تعلقات چلے آ رہے تھے۔ جنگ بعاث کے تذکرے چھیڑ چھیڑ کر وہ ان کو پرانی دشمنیاں یاد دلانے کی کوشش  کرتے تھے تاکہ ان کے درمیان پھر ایک دفعہ تلوار چل جائے اور اخوت کا وہ رشتہ تار تار ہو جائے جس میں اسلام نے ان کو باندھ دیا تھا۔ مسلمانوں کو مالی حیثیت سے تنگ کرنے کے لیے بھی وہ ہر قسم کی دھاندلیاں کرتے تھے۔ جن لوگوں  سے ان کا پہلے سے لین دین تھا، ان میں سے جونہی کوئی شخص اسلام قبول کرتا وہ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے تھے۔ اگر اس سے کچھ لینا ہوتا تو تقاضے کر کر کے اس کا ناک میں دم کر دیتے، اور اگر اسے کچھ دینا ہوتا تو اس کی رقم مار کھاتے تھے اور علانیہ کہتے تھے کہ جب ہم نے تم سے معاملہ کیا تھا اس وقت تمہارا دین کچھ اور تھا، اب چونکہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے اس لیے ہم پر تمہارا کوئی حق باقی نہیں ہے۔اس کی متعدد مثالیں تفسیر طبری تفسیر نیسابوری، تفسیر طبرسی اور تفسیر روح المعانی میں سورہ آل عمران، آیت 75 کی تشریح کرتے ہوئے نقل کی گئی ہیں۔ معاہدے کے خلاف یہ کھلی کھلی معاندانہ روش تو جنگ بدر سے پہلے ہی وہ اختیار کر چکے تھے۔ مگر جب بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کو قریش پر فتح مبین حاصل ہوٹی تو وہ تلملا اٹھے اور ان کے بغض کی آگ اور زیادہ بھڑک اٹھی۔ اس جنگ سے وہ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ قریش کی طاقت سے ٹکرا کر مسلمانوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی لیے انہوں نے فتح اسلام کی خبر پہنچنے سے پہلے مدینے میں یہ افواہیں اڑانی شروع کر دی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شہید ہو گئے، اور مسلمانوں کو شکست فاش ہوئی، اور اب ابوجہل کی قیادت میں قریش کا لشکر مدینے کی طرف بڑھا چلا آ رہا ہے۔ لیکن جب نتیجہ ان کی امیدوں اور تمناؤں کے خلاف نکلا تو وہ غم اور غصے کے مارے پھٹ پڑے۔ بنی نضیر کا سردار کعب بن اشرف چیخ اٹھا کہ ’’ خدا کی قَسم اگر محمدؐ نے ان اشراف عرب کو قتل کر دیا ہے تو زمین کا پیٹ ہمارے لیے اس کی  پیٹھ سے زیادہ بہتر ہے ‘‘۔ پھر وہ مکہ پہنچا اور بدر میں جو سرداران قریش مارے گئے تھے ان کے نہایت اشتعال انگیز مرثیے کہہ کر مکہ والوں کو انتقام پر اکسایا۔ پھر مدینہ واپس آ کر اس نے اپنے دل کی جلن نکالنے کے لیے ایسی غزلیں کہنی شروع کیں جن میں مسلمان شرفاء کے ساتھ عشق کیا گیا تھا۔ آخر کار اس کی شرارتوں سے  تنگ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ربیع الاول 3 ھ میں محمد بن مسلمہ انصاری کو بھیج کر اسے قتل کرا دیا (ابن سعد، ابن ہشام، تاریخ طبری)۔ یہودیوں کا پہلا قبیلہ جس نے اجتماعی طور پر جنگ بدر کے بعد کھلم کھلا اپنا معاہدہ توڑ دیا، بنی قینقاع تھا، یہ لوگ خود شہر مدینہ کے اندر ایک محلہ میں آباد تھے اور چونکہ یہ سنار، لوہار اور ظروف ساز تھے، اس لیے ان کے بازار میں اہل مدینہ کثرت سے جانا آنا پڑتا تھا۔ ان کو اپنی شجاعت پر بڑا ناز تھا۔ آہن گر ہونے کی وجہ سے ان کا بچہ بچہ مسلح تھا۔ سات سو مردان جنگی ان کے اندر موجود تھے۔ اور ان کو اس بات کا بھی زعم تھا کہ قبیلہ خزرج سے ان کے پرانے حلیفانہ تعلقات تھے اور خزرج کا سردار عبداللہ بن ابی ان کا پشتی بان تھا۔ بدر کے واقعہ سے یہ اس قدر مشتعل ہوئے کہ انہوں نے اپنے بازار میں آنے جانے والے مسلمانوں کو ستا نا، اور خاص طور پر ان کی عورتوں کو چھیڑنا شروع  کر دیا۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک روز ان کے بازار میں ایک مسلمان عورت کو بر سر عام برہنہ کر دیا گیا۔ اس پر سخت جھگڑا ہوا اور ہنگامے میں ایک مسلمان اور ایک یہودی قتل ہو گیا۔جب حالات اس حد کو پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم ان کے محلہ میں تشریف لے گئے اور ان کو جمع کر کے آپ نے ان کو راہ راست پر آنے کی تلقین فرمائی۔ مگر انہوں نے جواب دیا’’ اے محمدؐ، تم نے شاید ہمیں بھی قریش سمجھا ہے؟ وہ لڑنا نہیں جانتے تھے،اس لیے تم نے انہیں مار لیا۔ ہم سے سابقہ پیش آئے گا تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔ ‘‘  یہ گویا صاف صاف اعلان جنگ تھا۔ آخر کار رسول اللہ علیہ و سلم نے شوال (اور بروایت بعض ذی القعدہ) 2 ھ کے آخر میں ان کے محلہ کا محاصرہ کر لیا۔ صرف پندرہ روز ہی یہ محاصرہ رہا تھا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور ان کے تمام قابل جنگ آدمی باندھ لیے گئے۔ اب عبداللہ بن ابی ان کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے سخت اصرار کیا کہ آپ انہیں معاف کر دیں۔ چنانچہ حضور نے اس کی درخواست قبول کر کے یہ فیصلہ فرما دیا کہ بنی قینقاع اپنا سب مال، اسلحہ اور آلات صنعت چھوڑ کر مدینہ سے نکل جائیں (ابن سعد، ابن ہشام، تاریخ طبری)۔ ان دو سخت اقدامات (یعنی بنی قینقاع کے اخراج اور کعب بن اشرف کے قتل) سے کچھ مدت تک یہودی اتنے خوف زدہ رہے کہ انہیں کوئی مزید شرارت کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ مگر اس کے بعد شوال 3 ھ میں قریش کے لوگ جنگ بدر کا بدلہ لینے کے لیے بڑی تیاریوں کے ساتھ مدینہ پر چڑھ کر آئے، اور ان یہودیوں نے دیکھا کہ قریش کی تین ہزار فوج کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صرف ایک ہزار آدمی لڑنے کے لیے نکلے ہیں، اور ان میں سے بھی تین سو منافقین الگ ہو کر پلٹ آئے ہیں، تو انہوں نے معاہدے کی پہلی اور صریح خلاف ورزی اس طرح کی کہ مدینہ کی مدافعت میں آپ کے ساتھ شریک نہ ہوئے، حالانکہ وہ اس کے پابند تھے۔ پھر جب معرکہ احد میں مسلمانوں کو نقصان عظیم پہنچا تو ان کی جرأتیں اور بڑھ گئیں، یہاں تک کہ بنی نضیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کے لیے باقاعدہ ایک سازش کی جو عین وقت پر ناکام ہو گئی اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ بئر معونہ کے سانحہ (صفر 4 ھ) کے بعد عمرو بن امیہ ضمری نے انتقامی کار روائی کے طور پر غلطی سے بنی عامر کے دو آدمیوں کو قتل کر دیا جو دراصل ایک معاہِلہ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے مگر عمرو نے ان کو دشمن قبیلہ کے آدمی سمجھ لیا تھا۔ اس غلطی کی وجہ سے ان کا خون بہا مسلمانوں پر واجب آگیا تھا، اور چونکہ بنی عامر کے ساتھ معاہدے میں بنی نضیر بھی شریک تھ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چند صحابہ کے ساتھ خود ان کی بستی میں تشریف لے گئے تاکہ خون بہا کی ادائیگی میں ان کو بھی شرکت کی دعوت دین۔ وہاں انہوں نے آپ کو چکنی چپڑی باتوں میں لگا یا اور اندر ہی اندر یہ سازش کی کہ ایک شخص اس مکان کی چھت پر سے آپ کے اوپر ایک  بھاری پتھر گرا  دے جس کی دیوار کے سائے میں آپ تشریف فرما تھے۔ مگر قبل اس کے کہ وہ اپنی اس تدبیر پر عمل کرتے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بر وقت خبردار کر دیا، اور آپ فوراً وہاں سے اٹھ کر مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ اب ان کے ساتھ  کسی رعایت کا سوال باقی نہ رہا۔ حضورؐ نے ان کو بلاتا خیر یہ الٹی میٹم بھیج دیا کہ تم نے جو غداری کرنی چاہی تھی وہ میرے علم میں آ گئی ہے۔ لہٰذا دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جاؤ، اس کے بعد اگر تم یہاں ٹھیرے رہے تو جو شخص بھی تمہاری بستی میں پایا جائے گا۔ اس کی گردن مار دی جائے گی۔ دوسری طرف عبداللہ بن ابی نے ان کو پیغام بھیجا کہ میں دو ہزار آدمیوں سے تمہاری مدد کروں گا، بنی قریظہ  اور بنی غطفان بھی تمہاری مدد کو آئیں گے، تم ڈٹ جاؤ اور ہر گز اپنی جگہ نہ چھوڑو۔ اس جھوٹے بھروسے پر انہوں نے حضورؐ کے الٹی میٹم کا یہ جواب دیا کہ ہم یہاں سے ہیں نکلیں گے، آپ سے جو کچھ ہو سکے کر لیجیے۔ اس پر ربیع الاول 4 ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا محاصرہ کر لیا، اور صرف چند روز کے محاصرہ کے بعد (جس کی مدت بعض روایات میں چھ دن اور بعض میں پندرہ دن آئی ہے )وہ اس شرط پر مدینہ چھوڑ دینے کے لیے راضی ہو گئے کہ اسلحہ کے سوا جو کچھ بھی وہ اپنے اونٹوں پر لاد کر لے جا سکیں گے لے جائیں گے۔ اس طرح یہودیوں کے اس دوسرے شریر قبیلے سے مدینہ کی سر زمین خالی کرالی گئی۔ ان میں سے صرف دو آدمی مسلمان ہو کر یہاں ٹھیر گئے۔ باقی شام اور خیبر کی طرف نکل گئے۔ یہی واقعہ ہے جس سے اس سورہ میں بحث کی گئی ہے۔

موضوع اور مضامین:

 سورۃ کا موضوع، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، جنگ بنی نضیر پر تبصرہ ہے۔ اس میں بحیثیت مجموعی چار مضامین بیان ہوئے ہیں۔

(1)۔ پہلی چار آیتوں میں دنیا کو اس انجام سے عبرت دلائی گئی ہے جو ابھی ابھی بنی نضیر نے دیکھا تھا۔ ایک بڑا قبیلہ جو کے افراد کی تعداد اس وقت مسلمانوں کی تعداد سے کچھ کم نہ تھی، جو مال و دولت میں مسلمانوں سے بہت بڑھا ہوا تھا، جس کے پاس جنگی سامان کی بھی کمی نہ تھی، جس کی گڑھیاں بڑی مضبوط تھیں، صرف چند روز کے محاصرے کی تاب بی نہ لاسکا اور بغیر اس کے کہ کسی ایک آدمی کے قتل کی بھی نوبت آئی ہوتی وہ اپنی صدیوں کی جمائی بستی چھوڑ کر جلا وطنی قبول کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ مسلمانوں کی طاقت کا کرشمہ نہیں تھا بلکہ اس بات کا نتیجہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے نبر آزما ہوئے تھے اور جو لوگ اللہ کی طاقت سے ٹکرانے کی جرأت کریں وہ ایسے ہی انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔

(2)۔ آیت 5 میں قانون جنگ کا یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے دشمن ے علاقے میں جو تخریبی کار روائی کی جائے وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔

(3)۔ آیت 6 سے 10 تک یہ بتایا گیا ہے کہ ان ممالک کی زمینوں اور جائدادوں کا بندوبست کس طرح کیا جائے جو جنگ یا صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے زیر نگیں آئیں۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک مفتوحہ علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اس لیے یہاں اس کا قانون بیان کر دیا گیا۔

(4)۔ آیت 11 سے 17 تک منافقین کے اس رویہ پر تبصرہ کیا گیا ہے جو انہوں نے جنگ بنی نضیر کے موقع پر اختیار کیا تھا، اور ان اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے جو در حقیقت ان کے اس رویہ کی تہ میں کام کر رہے تھے۔

(5)۔ آخری رکوع پورا ایک نصیحت ہے جس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کی گروہ میں شامل ہو گئے ہوں، مگر ایمان  کی اصل روح سے خالی رہیں۔ اس میں ان کو بتایا گیا ہے کہ ایمان کا اصل تقاضا کیا ہے، تقویٰ اور فسق میں حقیقی فرق کیا ہے، جو قرآن کو ماننے کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کی اہمیت کیا ہے، اور جس خدا پر ایمان لانے کا وہ اقرار کرتے ہیں وہ کن صفات کا حامل ہے۔