آیات
206
وحی کی جگہ
مکہ
اس سورہ کا نام اَعراف اس لیے رکھا گیا ہے کہ ا س کی آیات ۴٦۔۴۷ میں اعراف اور اصحاب کا ذکر آیا ہے۔ گویا اسے”سورہ اَعراف“ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ”وہ سورہ جس میں اَعراف کا ذکر ہے۔“
اس کے مضامین پر غور کرنے سے بیّن طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول تقریباً وہی ہے جو سورہ انعام کا ہے ۔ یہ بات تو یقین ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ یہ پہلے نازل ہوئی ہے یا وہ ۔ مگر اندازِ تقریر سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ہے یہ اُسی دَور سے متعلق۔ لہذٰااس کے تاریخی پس منظر کو سمجھنے کے لیے اس دیباچہ پر ایک نگاہ ڈال لینا کافی ہوگا جو ہم نے سورہ انعام پر لکھا ہے ۔
اس سورہ کی تقریر کا مرکزی مضمون دعوت رسالت ہے ساری گفتگو کا مدّعا یہ ہے کہ مخاطبوں کو خدا کے فرستادہ پیغمبر کی پیروی اختیار کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ لیکن اس دعوت میں اِنذار(تنبیہ اور ڈرادے) کا رنگ زیادہ نمایا پایا جاتا ہے، کیونکہ جو لوگ مخاطب ہیں،(یعنی اہلِ مکّہ)انہیں سمجھاتے سمجھاتے ایک طویل زمانہ گزر چکا ہے اور اُن کی گراں گوشی، ہٹ دھرمی اور مخالفانہ ضد اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ عنقریب پیغمبر کو اُن سے مخاطبہ بند کر کے دوسروں کی طرف رجوع کرنے کا حکم ملنے والا ہے۔ اس لیے تفہیمی انداز میں قبول رِسالت کی دعوت دینے کے ساتھ ان کو یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جو روش تم نے اپنے پیغمبر کے مقابلہ میں اختیار کر رکھی ہے ایسی ہی روش تم سے پہلے کی قومیں اپنے پیغمبروں کے مقابلہ میں اختیار کر کے بہت بُرا انجام دیکھ چکی ہیں۔ پھر چونکہ ان پر حجت تمام ہونے کے قریب آگئی ہے اس لیے تقریر کے آخری حصّہ میں دعوت کا رُخ اُن سے ہٹ کر اہلِ کتاب کی طرف پھر گیا ہے اور ایک جگہ تمام دنیا کے لوگوں سے عام خطاب بھی کیا گیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اب ہجرت قریب ہے اور وہ دَور جس میں نبی کا خطاب تمام تر اپنے قریب کے لوگوں سے ہوا کرتا ہے، خاتمہ پر آلگا ہے۔
دورانِ تقری میں چونکہ خطاب کا رُخ پہود کی طرف بھی پھر گیا ہے اس لیے ساتھ ساتھ دعوتِ رسالت کے اِ س پہلو کو بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ پیغمبر پر ایمان لانے کے بعد اُس کے ساتھ منافقانہ روش اختیا کرنے ، اور سمع و طاعت کا عہد استوار کرنے بعد اُسے توڑ دینے ، اور حق اور باطل کی تمیز سے واقف ہو جانے کے نعد باطل پرستی میں مستفرق رہنے کا انجام کیا ہے۔
سورہ کے آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو حکمت ِ تبلیغ کے متعلق چند اہم ہدایات دی گئی ہیں اور خصوصیّت کے ساتھ انہیں نصیحت کی گئی ہے کہ مخالفین کی اشتعال انگیزیوں اور چیرہ دستیوں کے مقابلہ میں صبر و ضبط سے کام لیں اور جذبات کے ہیجان میں مبتلا ہو کر کوئی ایسا اقدام نہ کریں جو اصل مقصد کو نقصان پہنچانے والا ہو۔