مکہ
سورہ Al-Anbya

آیات

112

وحی کی جگہ

مکہ

نام :

اس سورت کا نام کسی خاص آیت سے ماخوذ نہیں ہے ۔ چونکہ اس میں مسلسل بہت سے انبیاء کا ذکر آیا ہے ، اس لیے اس کا نام ’’ الانبیاء‘‘ رکھ دیا گیا۔ یہ بھی موضوع کے لحاظ سے سورۃ کا عنوان نہیں ہے بلکہ محض پہچاننے کے لیے ایک علامت ہے ۔

زمانہ نزول:

مضمون اور انداز بیان، دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول مکے کا دور متوسط یعنی ہماری تقسیم کے لحاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا تیسرا دور ہے ۔ اس کے پس منظر میں حالات کی وہ کیفیت نہیں پائی جاتی جو آخری دور کی سورتوں میں نمایا ں طور پر محسوس ہوتی ہے ۔

موضوع و مضمون:

 

اس سورہ میں وہ کشمکش زیر بحث ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سرداران قریش کے درمیان برپا تھی ۔ وہ لوگ آنحضرتؐ کے دعوائے رسالت اور آپ کی دعوتِ توحید و عقیدہ آخرت پر جو شکوک اور اعتراضات پیش کرتے تھے ان کا جواب دیا گیا ہے ۔ انکی طرف سے آپ کی مخالفت میں جو چالیں چلی جا رہی تھیں ان پر زجر و توبیخ کی گئی ہے اور ان حرکتوں کے برے نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے ۔ وہ جس غفلت اور بے پروائی سے آپ کی دعوت کا استقبال کر رہے تھے اس پر متنبہ کیا گیا ہے ۔ اور آخر میں ان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جس شخص کو تم اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھ رہے ہو وہ در اصل تمہارے لیے رحمت بن کر آیا ہے ۔

دوران تقریر میں خاص طور پر جو امور زیر بحث آئے ہیں وہ یہ ہیں

:

          1)

کفار مکہ کی یہ غلط فہمی کہ بشر کبھی رسول نہیں ہو سکتا اور اس بنا پر ان کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ماننے سے انکار کرنا ۔۔۔۔۔ اس کا بڑی تفصیل کے ساتھ رد کیا گیا ہے ۔

          2)

ان کا آپ پر اور قرآن پر مختلف اور متضاد قسم کے اعتراضات کرنا اور کسی ایک بات پر نہ جمنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر مختصر مگر نہایت پر زور اور معنی خیز طریقے سے گرفت کی گئی ہے ۔           3)

ان کا یہ تصور کہ زندگی بس ایک کھیل ہے جسے چند روز کھیل کر یونہی ختم ہو جانا ہے ، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے ، کسی حساب کتاب اور جزا و سزا سے سابقہ نہیں پیش آنا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔یہ چیز چونکہ اس عجلت و بے اعتنائی کی اصل جڑ تھی جس کے ساتھ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا استقبال کر رہے تھے ، اس لیے بڑے ہی مؤثر انداز میں اس کا توڑ کیا گیا ہے ۔

          4)

شرک پر ان کا اصرار اور توحید کے خلاف ان کا جاہلانہ تعصب جوان کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اصل بنائے نزاع تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس اصلاح کے لیے شرک کے خلاف اور توحید کے حق میں مختصر مگر بہت وزنی اور دلنشین دلائل دیے گئے ہیں ۔           5)

ان کی یہ غلط فہمی کہ نبی کو بار بار جھٹلانے کے باوجود جب ان پر کوئی عذاب نہیں آتا تو ضرور نبی جھوٹا ہے اور عذاب الٰہی کی وہ وعیدیں جو وہ خدا کی طرف سے ہمیں  سناتا ہے محض خالی خولی دھمکیاں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس کو استدلال اور نصیحت ، دونوں طریقوں سے رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

اس کے بعد انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں کے اہم واقعات سے چند نظیریں پیش کی گئی ہیں جن سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ تمام وہ پیغمبر جو انسانی تاریخ کے دوران میں خدا کی طرف سے آئے تھے ، انسان تھے اور نبوت کے امتیازی وصف کو چھوڑ کر دوسری صفات میں وہ ویسے ہی انسان ہوتے تھے جیسے دنیا کے عام انسان ہوا کرتے ہیں ۔ اُلوہیت اور خدائی کا ان میں شائبہ تک نہ تھا بلکہ اپنی ہر ضرورت کے لیے وہ خود خدا کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے ۔ اس اس کے ساتھ انہی تاریخی نظیروں سے دو باتیں اور بھی واضح کی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ انبیاء پر طرح طرح کے مصائب آئے ہیں ، اور ان کے مخالفین نے بھی ان کو برباد کرنے کی کوششیں کی ہیں ، مگر آخر کار اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی طریقوں پر ان کی نصرت فرمائی گئی ہے ۔ دوسرے یہ کہ تمام انبیاء کا دین ایک تھا اور وہ وہی دین تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں ۔ نوع انسانی کا اصل دین یہی ہے ، اور باقی جتنے مذاہب دنیا میں بنے ہیں وہ محض گمراہ انسانوں کے ڈالے ہوئے تفرقے ہیں ۔

آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کی نجات کا انحصار اسی دین کی پیروی اختیار  کرنے پر ہے ۔ جو لوگ اسے قبول کریں گے وہی خدا کی آخری عدالت سے کامیاب نکلیں گے اور زمین کے وارث ہوں گے ۔ اور جو لوگ اسے رد کر دیں گے وہ آخرت میں بد ترین انجام سے دوچار ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی مہربانی ہے کہ وہ فیصلے کے وقت سے پہلے اپنے نبی کے ذریعہ سے لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کر رہا ہے ۔ نادان ہیں وہ لوگ جو نبی کی آمد کو اپنے لیے رحمت کے بجائے زحمت سمجھ رہے ہیں ۔