مکہ
سورہ Al-'Alaq

آیات

19

وحی کی جگہ

مکہ

نام :

    

دوسری آیت کے لفظ عَلَقَ

کو اس سورۃ کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول :

     اس سورۃ کے دو حصّے ہیں ۔ پہلا حصّہ

اِقْراْ

سے شروع ہو کر پانچویں آیت کے الفاظ  

مَا لَمْ یَعْلَمْ

 پر ختم ہوتا ہے اور دوسرا حصّہ

کَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰی

سے شروع ہو کر آخر سُورۃ تک چلتا ہے۔ پہلے حصّے کے متعلق علمائے امّت کی عظیم اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ  یہ سب سے پہلے وحی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ اِس معاملہ میں حضرت عائشہؓ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سُن کر آغازِ وحی کا پورا قصہ بیان کیا ہے۔ اِس کے علاوہ ابن عباسؓ ، ابو موسیٰ اشعریؓ اور صحابہ کی ایک جماعت سے یہی بات منقول ہے کہ قرآن کی سب سے پہلی آیات جو حضور ؐ پر نازل ہوئیں  وہ یہی تھیں۔ دوسرا حصّہ بعد میں اُس وقت نازل ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حَرَم میں نماز پڑھنی شروع کی اور ابو جہل نے آپ کو دھمکیاں دے کر اس سے روکنے کی کوشش کی۔

آغازِ وحی:

        محدّثین نے آغازِ وحی کا قصّہ اپنی اپنی سندوں  کے ساتھ امام زُہْری سے ، اور انہوں نے حضرت عُروَہ بن زُبَیر سے اور انہوں نے اپنی خالہ حضرت عائشہؓ سے نقل کیا ہے۔وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا سچّے(اور بعض روایات میں ہے اچھے) خوابوں کی شکل میں ہوئی۔ آپ جو خواب بھی دیکھتے وہ ایسا ہوتا کہ جیسے آپ دن کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں۔ پھر آپ تنہائی پسند ہو گئے اور کئی کئی شب و روز غارِ حرا میں رہ کر عبادت کرنے لگے (حضرت عائشہؓ نے تَحَنُّث کا لفظ استعمال کیا ہے جس کی تشریح امام زُہْرِی نے تعبُّد سے کی ہے۔ یہ کسی طرح کی عبادت تھی جو آپ کرتے تھے، کیونکہ اُس وقت تک اللہ تعالیٰ  کی طرف سے آپ کو عبادت کا طریقہ نہیں بتایا گیا تھا)۔ آپ کھانے پینے کا سامان گھر سے لے  جا کر وہاں چند روز گزارتے، پھر حضرت خَدِیجہؓ کے پاس واپس آتے اور وہ مزید چند روز کے لیے سامان آپ کے لیے مہیا کر دیتی تھیں۔ ایک روز جبکہ آپ غارِ حرا میں تھے ، یکایک آپ پر وحی نازل ہوئی اور فرشتے نے آکر آپ سے کہا پڑھو۔ اس کے بعد حضرت عائشہؓ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نقل کرتی ہیں کہ میں نے کہا” میں تو پڑھا ہو انہیں ہوں۔“ اس پر فرشتے  نے مجھے پکر کر بھینچا یہاں تک کہ میری قوت ِ برداشت جواب دیے لگی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو۔ میں نے کہا”میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں۔“ اس نے دوبارہ مجھے بھینچا اور میری قوت ِ برداشت جواب دینے لگی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو۔ میں نے پھر کہا”میں  توپڑھا ہوا نہیں ہوں۔“ اس نے تیسری بار مجھے بھینچا یہاں تک کہ میری قوتِ برداشت جواب دینے لگی۔ پھر اُس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا

اِقْرَاْ بِا سْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔

(پڑھو اپنے ربّ کے نام سے جس نے پیدا کیا) یہاں تک کہ

مَا لَمْ یَعْلَمْ

( جسے وہ نہ جانتا تھا) تک پہنچ گیا۔ حضرت  عائشہ ؓ  فرماتی ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نپتے  لرزتے ہوئے وہاں سے پلٹے اور حضرت خَدِیجہؓ کے پاس پہنچ کر کہا” مُجھے اُڑھاوٴ،  مجھے اُڑھاوٴ “۔ چنانچہ آپ کو اڑھا دیا گیا۔ جب آپ پر سے خوفزدگی کی کیفیت دور ہو گئی تو  آپ نے فرمایا”اے خدیجہؓ ، یہ مجھے کیا ہو گیا ہے۔“ پھر سارا قصّہ آپ نے اُن کو سنایا اور کہا”مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔“ انہوں نے کہا” ہر گز نہیں، آپ خوش ہو جائیے، خدا کی قسم، آپ کو خدا کبھی رسوا نہ کرے گا۔ آپ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں ، (ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ امانتیں ادا کرتے ہیں)، بے سہارا لوگوں  کا بار برداشت کرتے ہیں، نادار لوگوں کو کما کر دیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، اور نیک کاموں میں مدد کرتے ہیں۔“  پھر وہ حضورؐ کو ساتھ لے کر وَرَقَہ بن نَوفَل کے پاس گئیں  جو اُن کے چچا زاد بھائی تھے، زمانہء جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے، عربی اور عبرانی میں انجیل لکھتے تھے، بہت بوڑھے اور نابینا ہو گئے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے اُن سے کہا  بھائی جان ، ذرا اپنے بھتیجے کا قصّہ سُنیے۔ وَرَقَہ نے حضورؐ سے کہا بھتیجے  تم کو کیا نظر آیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا وہ بیان کیا۔ وَرَقَہ نے کہا”یہ وہی ناموس (وحی لانے والا فرشتہ) ہے جو اللہ نے موسیٰؑ پر نازل کیا تھا۔ کاش میں آپ کے زمانہء نبوت میں قوی جوان ہوتا۔ کاش میں اُس وقت زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکالے گی۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟“ وَرَقَہ نے کہا”ہاں، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپ لائے ہیں اور اُس سے دشمنی نہ کی گئی ہو۔ اگر میں نے آپ کا وہ زمانہ پایا تو میں آپ کی پُر زور مدد کروں گا۔“  مگر زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ   ورقہ کا انتقال ہو گیا۔

یہ قصّہ خود اپنے منہ سے بول رہا ہے کہ فرشتے کی آمد سے ایک لمحہ پہلے تک بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے خالی الذہن تھے کہ آپ نبی بنائے جانے والے ہیں۔ اِس چیز کا طالب یا مُتَوَقِّع ہونا تو درکنار، آپ کے وہم و گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ ایسا کوئی معاملہ  آپ کے ساتھ پیش آئے گا۔ وحی کا نزول اور فرشتے کا اِس طرح سامنے آنا آپ کے لیے اچانک ایک حادثہ تھا جس کا پہلا تاثُر آپ کے اوپر  وہی ہوا جو ایک بے خبر انسان پر اِتنے بڑے ایک حادثہ کے پیش آنے سے فطری طور پر ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ اسلام کی دعوت لے کر اُٹھے تو مکّہ کے لوگوں نے آپ  پر ہر طرح کے  اعتراضات کیے، مگر اُن میں کوئی یہ کہنے والا نہ تھا کہ ہم کو تو پہلے ہی یہ خطرہ تھا کہ آپ کوئی دعویٰ کرنے والے ہیں کیونکہ آپ ایک مدت سے نبی بننے کی تیاریاں کر رہے تھے۔

اس قصّے سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ  نبوّت سے پہلے آپ کی زندگی کیسی پاکیزہ تھی اور آپ کا کردار کتنا بلند تھا۔ حضرت خدیجہ ؓ کوئی کم سن خاتون نہ تھیں بلکہ اِس واقعہ کے وقت اُن کی عمر ۵۵ سال تھی اور پندرہ سال سے وہ حضورؐ کی شریکِ زندگی تھیں۔ بیوی سے شوہر کی کوئی کمزوری چھپی نہیں رہ سکتی۔ انہوں نے اِس طویل ازدواجی زندگی میں آپ کو اِتنا عالی مرتبہ انسان پایا تھا کہ جب حضورؐ نے اُن کو غارِ حراء میں پیش آنے والا واقعہ سنایا تو بلا تامُل انہوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ فی الواقع  اللہ کا فرشتہ ہی آپ کے پاس وحی لے کر آیا تھا۔ اِسی طرح وَرَقہ بن نَوفَل بھی مکّہ کے ایک بوڑھے باشندے تھے ، بچپن سے حضورؐ کی زندگی دیکھتے چلے آرہے تھے، اور پندرہ سال کی قریبی رشتہ داری کی بنا پر تو وہ آپ کے حالات سے اور بھی زیادہ گہری واقفیت رکھتے تھے۔ اُنہوں نے بھی جب یہ واقعہ سُنا تو اِسے کوئی وَسْوَسہ نہیں سمجھا بلکہ سنتے ہی کہہ دیا کہ یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ اِس کے  معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک بھی آپ اِتنے بلند پایہ انسان تھے کہ آپ کا نبوت کے منصب پر سرفراز ہونا کوئی قابلِ تعجب امر نہ تھا۔

دوسرے حصہ کا شانِ نزول :

            

اِس سُورہ کا دوسرا حصّہ اُس وقت نازل ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حَرَم میں اسلامی طریقہ پر نماز پڑھنی شروع کی اور ابو جہل نے آپ کو ڈرا دھمکا کر اِس سے روکنا چاہا۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ نبی ہونے کےبعد قبل اِس کے کہ حضورؐ اسلام کی عَلانیہ تبلیغ کا آغاز کرتے، آپ نے حَرَم میں اُ س طریقے پر نماز ادا کرنی شروع کر دی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھائی تھی ، اور یہی وہ چیز تھی جس سے قریش نے پہلی مرتبہ یہ محسوس کیا کہ آپ کسی نئے دین کے پیرو ہو گئے ہیں۔ دوسرے لوگ تو اِسے حیرت ہی کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے، مگر ابو جہل کی رگِ جاہلیت اِس پر پھڑک اُٹھی اور اس نے آپ کو دھمکانا شروع کر دیا کہ اِس طریقے پر حرم میں عبادت نہ کریں۔ چنانچہ اس سلسلے میں کئی احادیث حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہیں جن میں ابو جہل کی اِن بیہودگیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ ابو جہل نے قریش کے لوگوں سے پوچھا ”کیا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے سامنے زمین پر اپنا منہ ٹِکاتے ہیں؟“ لوگوں نے کہا ہاں۔ اس نے کہا” لات اور عُزّیٰ کی قسم، اگر میں نے ان کو اِس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو ان کی گردن پر پاو ٴں رکھ دوں گا اور ان کا منہ زمین میں رگڑ دوں گا۔“ پھر ایسا ہوا کہ حضورؐ کو نماز پڑھتے  دیکھ کر وہ آگے بڑھا  تاکہ آپ کی گردن پر پاوٴں رکھے، مگر یکایک لوگوں نے دیکھا کہ وہ پیچھے ہٹ رہا ہے اور اپنا منہ کسی چیز سے بچانے کی کوشش کررہا ہے۔ اُس سے پوچھا گیا کہ یہ تجھے کیا ہو گیا؟ اس نے کہا میرے اور اُن کے درمیان آگ کی ایک خندق اور ایک ہولناک چیز تھی اور کچھ پَر تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب پھٹکتا تو ملائکہ اُس کے چیتھڑے اڑا دیتے (احمد، مسلم، نَسائی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن المُنْذِر، ابن مَرْدُویَہ، ابو نُعَیم اصفہانی، بَیْہَقی)۔

ابن عبارؓ کی روایت ہے کہ ابو جہل نے کہا اگر میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کعبہ کے پاس نماز پڑھتے دیکھ لیا تو اُن کی گردن پاوٴں تلے دبا دوں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو ملائکہ علانیہ اُسے آپکڑیں گے (بخاری، تِرْمِذِی، نَسائی، ابن جریر، عبد الرزاق، عبد بن حُمَید، ابن المُنذِر، ابن مَرْدُوْیَہ)۔

ابن عباسؓ کی ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم پر نماز پڑھ رہے تھے۔ ابو جہل کا اُدھر سے گزر ہوا تو اس نے کہا  اے محمدؐ، کیا میں نے تم کو اِس سے منع نہیں کیا تھا؟ اور اس نے آپ کو دھمکیاں دینی شروع کیں ۔ جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سختی کے ساتھ جھڑک دیا۔ اِس پر اس نے کہا اے محمدؐ، تم کس بل پر مجھے ڈرا رہے ہو۔ خدا کی قسم، اِس وادی میں میرے حمایتی سب سے زیادہ ہیں۔ (احمد، تِرْمِذی، نَسائی، ابن جریر، ابن ابی شَیْبَہ، ابن المُنذِر، طَبرَانی، ابن مَرْدُوْیَہ)۔

انہی واقعات پر اِس سورہ کا وہ حصّہ نازل ہوا جو کَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰی

سے شروع ہو تا ہے ۔ قدرتی طور پر اِس حصّے کا مقام وہی ہونا چاہیے تھا جو قرآن کی اِس سورۃ میں رکھا گیا ہے ۔ کیونکہ پہلی وحی نازل ہونے کے بعد اِسلام کا اوّلین اظہار حضورؐ نے غار ہی سے کیا تھا، اور کفّارِ  سے آپ کی مُڈبھیڑ کا آغاز بھی اِسی واقعہ سے ہوا تھا۔