مکہ
سورہ Adh-Dhariyat

آیات

60

وحی کی جگہ

مکہ

نام:

پہلے ہی لفظ وَالذّٰرِیَات سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورۃ جس کی ابتدا لفظ الذاریات سے ہوتی ہے۔

زمانۂ نزول :

مضامین اور انداز بیان سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سورۃ اس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا مقابلہ تکذیب و استہزاء اور جھوٹے الزامات تو بڑے زور شور کے ساتھ ہو رہا تھا، مگر ابھی ظلم و تشدد کی چکی چلنی شروع نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے یہ بھی اسی دور کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے جس میں سورہ ’’ق‘‘ نازل ہوئی ہے۔

موضوع اور مباحث:

س کا بڑا حصہ آخرت کے موضوع پر ہے، اور آخر میں توحید کی دعوت پیش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ لوگوں کو اس بات پر بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بات نہ ماننا اور اپنے جاہلانہ تصورات پر اصرار کرنا خود انہی قوموں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے جنہوں نے یہ روش اختیار کی ہے۔

آخرت کے متعلق جو بات اس سورہ کے چھوٹے چھوٹے مگر نہایت پُر معنی فقروں میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی مآل و انجام کے بارے میں لوگوں کے مختلف اور متضاد عقیدے خود اس بات کا صریح ثبت ہیں کہ ان میں سے کوئی عقیدہ بھی علم پر مبنی نہیں ہے بلکہ ہر ایک نے قیاسات دوڑا کر اپنی جگہ جو نظریہ قائم کر لیا اسی کو وہ اپنا عقیدہ بنا کر بیٹھ گیا۔ کسی نے سمجھا کہ زندگی بعد موت نہیں ہو گی۔ کسی نے اس کو مانا تو تناسخ کی شکل میں مانا۔ کسی نے حیات بڑے اور اہم ترین بنیادی مسئلے پر، جس کے بارے میں آدمی کی رائے کا غلط ہو جانا اس کی پوری زندگی کو غلط کر کے رکھ دیتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے مستقبل کو برباد کر ڈالتا ہے، علم کے بغیر محض قیاسات کی بنا پر کوئی عقیدہ بنا لینا ایک تباہ کن حماقت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا رہ کر ساری عمر جاہلانہ غفلت میں گزار دے اور مرنے کے بعد اچانک ایک ایسی صورت حال سے دو چار ہو جس کے لیے اس نے قطعاً کوئی تیاری نہ کی تھی۔ ایسے مسئلے کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنے کا بس ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسان کا آخرت کے متعلق جو علم خدا کی طرف سے اس کا نبی دے رہا ہے اس پر وہ سنجیدگی کے ساتھ غور کرے اور زمین و آسمان کے نظام اور خود اپنے وجود پر نگاہ ڈال کر کھلی آنکھوں سے دیکھے کہ کیا اس علم کے صحیح ہونے کی شہادت ہر طرف موجود نہیں ہے؟ اس سلسلے میں ہوا اور بارش کے انتظام کو، زمین کی ساخت اور اس کی مخلوقات کو، انسان کے اپنے نفس کو، آسمان کی تخلیق کو، اور دنیا کی تمام اشیاء کے جوڑوں کی شکل میں بنائے جانے کو آخرت کی شہادت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اور انسانی تاریخ سے مثالیں دے کر بتایا گیا ہے کہ سلطنت کائنات کا مزاج کس طرح ایک قانون مکافات کا  مقتضی نظر آ رہا ہے۔ اس کے بعد بڑے مختصر انداز میں توحید کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تمہارے خالق نے تم کو دوسروں کی بندگی کے لیے نہیں بلکہ اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ وہ تمہارے بناوٹی معبودوں کی طرح نہیں ہے جو تم رزق لیتے ہیں اور تمہاری مدد کے بغیر جن کی خدائی نہیں چل سکتی۔وہ ایسا معبود ہے جو سب کا رزاق ہے، کسی سے رزق لینے کا محتاج نہیں، اور جس کی خدائی خود اس کے اپنے بل بوتے پر چل رہی ہے۔ اسی سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا مقابلہ جب بھی کیا گیا ہے کسی معقول بنیاد پر نہیں بلکہ اسی ضد اور ہٹ دھرمی اور جاہلانہ غرور کی بنیاد پر کیا گیا ہے جو آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ برتی جا رہی ہے۔ اور اس کی محرک بجز سر کشی کے اور کوئی چیز نہیں ہے۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ان سرکشوں کی طرف التفات نہ کریں اور اپنی دعوت و تذکیر کا کام کیے جائیں، کیونکہ وہ ان لوگوں کے لیے چاہے نافع نہ ہو، مگر ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔ رہے وہ ظالم جو اپنی سرکشی پر مصر رہیں، تو ان سے پہلے اسی روش پر چلنے والے اپنے حصے کا عذاب پا چکے ہیں اور ان کے حصے کا عذاب تیار ہے۔