آیات
25
وحی کی جگہ
مکہ
پہلی ہی آیت کے لفظ
اِنْشَقَّتْسے ماخوذ ہے۔ اِنْشِقاق مصدر ہے جس کے معنی پھٹ جانے کے ہیں اور اس کانام کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورۃ ہے جس میں آسمان کے پھٹنے کا ذکر آیا ہے۔
یہ بھی مکّہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔ اس کے مضمون کی داخلی شہادت یہ بتا رہی ہے کہ ابھی ظلم و ستم کا دور شروع نہیں ہوا تھا، البتہ قرآن کی دعوت کو مکّہ میں بر ملا جُھٹلا یا جا رہا تھا اور لوگ یہ ماننے سے انکار کر رہے تھے کہ کبھی قیامت بر پا ہوگی اور اُنہیں اپنے خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر ہونا پڑے گا۔
اس کاموضوع قیامت اور آخرت ہے۔
پہلی پانچ آیتوں میں نہ صرف قیامت کی کیفیت بیان کی گئی ہے بلکہ اس کے بر حق ہونے کی دلیل بھی دے دی گئی ہے۔ اُس کی کیفیت یہ بتائی گئی ہے کہ اُس روز آسمان پھٹ جائے گا، زمین پھیلا کر ہموار میدان بنا دی جائے گی، جو کچھ زمین کے پیٹ میں ہے(یعنی مردہ انسانوں کے اجزائے بدن اور ان کے اعمال کی شہادتیں) سب کو نکال کر وہ باہر پھینک دے گی، حتی کہ اس کے اندر کچھ باقی نہ رہے گا۔ اور اس کی دلیل یہ دی گئی ہے کہ آسمان و زمین کے لیے اُن کے رب کا حکم یہی ہوگا اور چونکہ دونوں اُس کی مخلوق ہیں اس لیے وہ اس کے حکم سے سرتابی نہیں کر سکتے، اُن کے لیے حق یہی ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم کی تعمیل کریں۔اس کے بعد آیت ۶ سے ۱۹ تک بتایا گیا ہے کہ انسان کو خواہ اِس کا شعور ہو یا نہ ہو ، بہرحال وہ اُس منزل کی طرف چار و ناچار چلا جا رہا ہے جہاں اُسے اپنے رب کے آگے پیش ہونا ہے ۔ پھر سب انسان دو حصوں میں بٹ جائیں گے۔ ایک ، وہ جن کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ وہ کسی سخت حساب فہمی کے بغیر معاف کر دیے جائیں گے۔ دوسرے وہ جن کا نامہ اعمال پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا۔ وہ چاہیں گے کہ کسی طرح انہیں موت آجائے، مگر مرنے کے بجائے وہ جہنم میں جھونک دیے جائیں گے۔ ان کا یہ انجام اس لیے ہو گا کہ وہ دنیا میں اِس غلط فہمی پر مگن رہے کہ کبھی خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر ہونا نہیں ہے۔ حالانکہ ان کا رب ان کے سارے اعمال کو دیکھ رہا تھا اور کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ان اعمال کی باز پرس سے چھوٹ جائیں۔ اُن کا دنیا کی زندگی سے آخرت کی جزا وسزا تک درجہ بدرجہ پہنچنا اُتنا ہی یقینی ہے جتنا سورج ڈوبنے کے بعد شفق کا نمودار ہونا، دن کے بعد رات کا آنا اور اس میں انسان اور حیوانات کا اپنے اپنے بسیروں کی طرف پلٹنا، اور چاند کا ہلال سے بڑھ کر ماہِ کامل بننا یقینی ہے۔
آخر میں اُن کفار کو درف ناک سزا کی خبر دے دی گئی ہے جو قرآن کو سن کر خدا کے آگے جھکنے کے بجائے الٹی تکذیب کرتے ہیں، اور اُن لوگوں کو بے حساب اجر کا مژدہ سنا دیا گیا ہے جو ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں۔