آیات
50
وحی کی جگہ
مکہ
پہلی آیت کے لفظ والمُرسَلٰتِ
کو اس سورۃ کا نام قرار دیا گیا ہے۔
اس سورۃ کا پُورا مضمون یہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دَور میں نازل ہوئی ہے۔ اس سے پہلے کی دو سُورتیں سورۂ قیامہ، اور سورہ دہر، اور اس کے بعد کی دو سورتیں، سورہ نبأ اور سورۂ نازِ عات اگر ملا کر پڑھی جائیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ایک ہی دور کی نازل شدہ سورتیں ہیں اور ایک ہی مضمون ہے جس کو اِن میں مختلف پیرایوں سے اہل مکہ ذہن نشین کرایا گیا ہے۔
اس کا موضوع قیامت اور آخرت کا اثبات ، اور اُن نتائج سے لوگوں کو خبر دار کرنا ہے جو اِن حقائق کے انکار اور اقرار سے آخر کار بر آمد ہونگے۔
پہلی سات آیتوں میں ہواؤں کے انتظام کو اِس حقیقت پر گواہ قرار دیا گیا ہے کہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس قیامت کے آنے کی خبر دے رہے ہیں وہ ضرور واقع ہو کر رہے گی۔ ان میں استدلال یہ ہے کہ جس قادر ِ مطلق نے زمین پر یہ حیرت انگیز انتظام قائم کیا ہے اُس کی قدرت قیامت بر پا کرنے سے عاجز نہیں ہو سکتی، اور جو صریح حکمت اِس انتظام میں کار فرما نظر آ رہی ہے وہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ آخرت ضرور ہونی چاہیے، کیونکہ حکیم کا کوئی فعل عبث اور بے مقصد نہیں ہو سکتا ، اور آخرت نہ ہو تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ یہ سارا کارخانہ ہستی سراسر فضول ہے۔اہلِ مکہ بار بار کہتے تھے کہ جس قیامت سے تم ہم کو ڈرا رہے ہو اسے لا کر دکھاؤ تب ہم اسے مانیں گے۔ آیت ۸ سے ۱۵ تک اُن کے اِس مطالبے کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے کہ وہ کوئی کھیل یا تماشا تو نہیں ہے کہ جب کوئی مسخر ا اسے دکھانے کا مطالبہ کر ے اسی وقت وہ فوراً دکھا دیا جائے۔ وہ تو تمام نوعِ انسانی، اور س کے تمام افراد کے مقدمے کے فیصلے کا دن ہے۔ اُس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص وقت مقرر کر رکھا ہے۔ اُسی وقت پر وہ آئے گا۔ اور جب آئے گا تو ایسی ہولناک شکل میں آئے گا کہ آج جو لوگ مذاق کے طور پر اس کا مطالبہ کر رہے ہیں اس وقت اُن کے حواس باختہ ہو جائیں گے۔ اُس وقت اُنہی رسولوں کی شہادت پر ان کے مقدمے کا فیصلہ ہو گا جن کی دی ہوئی خبر کو یہ منکرین آج بڑی بے باکی کے ساتھ جُھٹلا رہے ہیں، پھر انہیں خود پتہ چل جائے گا کہ انہوں نے کس طرح خود اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کیا ہے۔
آیت ۱۶ سے ۲۸ تک مسلسل قیامت اور آخرت کے وقوع اور وجوب کے دلائل دیے گئے ہیں۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ انسان کی اپنی تاریخ، اس کی اپنی پیدائش ، اور جس زمین پر وہ زندگی بسر کر رہا ہے اس کی اپنی ساخت اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ قیامت کا آنا اور عالمِ آخرت کا بر پا ہو نا ممکن بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کاتقاضا بھی ۔ انسانی تاریخ بتا رہی ہے کہ جن قوموں نے بھی آخرت کا انکار کیا وہ آخر کار بگڑیں اور تباہی سے دو چار ہوئیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آخرت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی قوم کا رویہ اگر متصادم ہو تو اُس کا انجام وہی ہوتاہے جو اُس اندھے کا انجام ہوتا ہے جو سامنے آتی ہوئی گاڑی کے مقابلے میں بگ ٹُٹ چلا رہا ہو۔ اور اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ کائنات کی سلطنت میں صرف قوانین طبیعی (Physical Law) ہی کار فرما نہیں ہیں بلکہ ایک قانونِ اخلاقی (Moral Law) بھی کام کر رہا ہے جس کے تحت خود اس دنیا میں بھی مُکافات ِ عمل کا سلسلہ جاری ہے ۔ لیکن دنیا کی موجودہ زندگی میں یہ مُکافات چونکہ اپنی کامل ومکمل صورت میں واقع نہیں ہو رہی ہے اس لیے کائنات کا اخلاقی قانون لازماً یہ تقاضا کرتا ہے کہ کوئی وقت ایسا آئے جب یہ بھر پُور طریقے سے واقع ہو اور اُن تمام بھلائیوں اور بُرائیوں کی پُوری جزا وسزا دی جائے جو یہاں جزا سے محروم رہ گئی ہیں یا سزا سے بچ نکلی ہیں ۔ اس کے لیے نا گزیر ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی ہو، اور انسان کی پیدائش دنیا میں جس طرح ہوتی ہے اس پر اگر انسان غور کرے تو اس کی عقل۔۔۔۔بشرطیکہ وہ سلیم ہو۔۔۔۔ اس بات کو ماننے سے انکار نہیں کر سکتی کہ جس خدا نے یک حقیر نطفہ سے ابتداء کر کے اُسے پُورا آدمی بنایا ہے اُس کے لیے اُسی آدمی کو پھر پید کر دینا یقیناً ممکن ہے۔ زندگی بھر انسان جس زمین پر رہتا ہے، مرنے کے بعد اس کے اجزائے جسم کہیں غائب نہیں ہو جاتے، اسی زمین پر اُن کا ایک ایک ذرہ موجود رہتا ہے۔ اسی زمین کے خزانوں سے وہ بنتا اور پھلتا اور پھولتا اور پر ورش پاتا ہے، اور پھر اسی زمین کے خزانوں میں واپس جمع ہو جا تا ہے۔ جس خدا نے اُسے پہلے زمین کےان خزانوں سے نکالا تھا وہی اُن میں جمع ہوجانے کے بعد اُسے پھر اُن سے نکال لا سکتا ہے۔ اُس کی قدرت پر غور کرو تو تم اِس سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہ ایسا کر سکتا ہے۔ اور اس کی حکمت پر غور کرو تو تم اس سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ زمین پر جو اختیارات اُس نے تمہیں دیے ہیں اُن کے صحیح اور غلط استعمال کا حساب لینا یقیناً اُس کی حکمت کا تقاضا ہے اور بلا حساب چھوڑ دینا سراسر حکمت کے خلاف ہے۔اس کے بعد آیات۲۸تا۴۰ تک آخرت کے منکرین کا، اور ۴۱ سے ۴۵ تک اُن لوگوں کا انجام بیان کیا گیا ہے جنہوں نے اُس پر ایمان لا کر دنیا میں اپنی عاقبت سنوارنے کی کوشش کی ہے ، اور عقائد و افکار، اخلاق واعمال، اور سیرت و کردار کی اُن بُرائیوں سے اجتناب کیا ہے جوچاہے آدمی کی دنیا بناتی ہوں مگر اس کی عاقبت خراب کر دینے والی ہوں۔
آخر میں منکرین ِ آخرت اور خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں جو کچھ مزے اڑانے ہیں اڑالو، آخر کار تمہارا انجام سخت تباہ کن ہوگا۔ اور بات اس پر ختم کی گئی ہے کہ اس قرآن سے بھی جو شخص ہدایت نہ پائے اسے پھر دنیا میں کوئی چیز ہدایت نہیں دے سکتی۔