مدینہ
سورہ Ar-Rahman

آیات

78

وحی کی جگہ

مدینہ

نام:

پہلے ہی لفظ کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سورۃ ہے جو لفظ الرحمٰن سے شروع ہوتی ہے۔ تاہم اس نام کو سورۃ کے مضمون سے بھی گہری مناسبت ہے، کیونکہ اس میں شروع سے آخر تک اللہ تعالیٰ کی سفت رحمت کے مظاہر و ثمرات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

زمانۂ نزول:

 علمائے تفسیر بالعموم اس سورۃ کو مکی قرار دیتے ہیں۔ اگر چہ بعض روایات میں حضرت عبداللہ بن عباس اور عکرمہ اور قتادہ سے یہ قول منقول ہے کہ یہ سورۃ مدنی ہے، لیکن اول تو انہی بزرگوں سے بعض روایات اس کے خلاف بھی منقول ہوئی ہیں، دوسرے اس کا مضمون مدنی سورتوں کی بہ نسبت مکی سورتوں سے زیادہ مشابہ ہے، بلکہ اپنے مضمون کے لحاظ سے یہ مکہ کے بھی ابتدائی دور کی معلوم ہوتی ہے۔ اور مزید براں متعدد معتبر روایات سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ یہ مکہ معظمہ ہی میں ہجرت سے کئی سال قبل نازل ہوئی تھی۔

مسند احمد میں حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ ’‘میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حرم میں خانہ کعبہ کے اس گوشے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے دیکھا جس میں حجر اسود نصب ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جبکہ ابھی فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْ

(جس چیز کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے اسے ہانکے پکارے کہہ دو) کا فرمان الٰہی نازل نہیں ہوا تھا۔ کہ مشرکین اس نماز میں آپ کی زبان سے

فَبِاَئِ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ

کے الفاظ سن رہے تھے ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سورۃ سورہ الحجر سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔

البزار، ابن جریر،ابن المنذ،ر، دار قظنی (فیالفراد)، ابن مردویہ، اور الخطیب(فی التاریخ) نے حضرت عبداللہ بن عمر سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورہ رحمٰن خود تلاوت فرمائی، یا آپ کے سامنے یہ سورۃ پڑھی گئی۔ پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ ’’ کیا وجہ ہے کہ میں تم سے ویسا اچھا جواب نہیں سن رہا ہوں جیسا جِنوں نے اپنے رب کو دیا تھا‘‘؟ لوگوں نے عرض کیا وہ کیا جواب تھا؟ آپ نے فرمایا کہ ’’ جب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد فَبِاَیِّ اٰلَآ ءِرَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ 

پڑھتا تو جن اس کے جواب میں کہتے جاتے تھے کہ

لَآ بِشَیءٍ مِّنْ نِعْمَۃِ رَبِّنَا نُکَذِّبُ

، ’’رب کی کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے ‘‘۔

اسی سے ملتا جلتا مضمون ترمذی، حاکم اور حافظ ابوبکر بزار نے حضرت جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے۔ ان کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب لوگ سورہ رحمٰن کو سن کر خاموش رہے تو حضورؐ نے فرمایا لقد قرأتھا علی الجن لیلۃ الجن فکانوا احسن مردوداً منکم، کنت کلما اتیت علیٰ قولہ "فَبِاَیِّ اٰلَآ ءِرَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ" قالو لا بِشَیْءٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّب فَلَکَ الحْمد ۔۔

یعنی ’’ میں نے یہ سورۃ جِنوں کو سنائی تھی جس میں وہ قرآن سننے کے لیے جمع ہوئے تھے۔وہ اس کا جواب تم سے بہتر دے رہے تھے۔ جب میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر پہنچتا تھا کہ اے جن و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے، تو وہ اس کے جواب میں کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار، ہم تیری کسی  نعمت کو نہیں جھٹلاتے، حمد تیرے ہی لیے ہے۔‘‘

اس روایت سے معلوم ہوا کہ سورہ احقاف (آیات 29۔ 32) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے جنوں کے قرآن سننے کا جو واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس موقع پر حضورؐ نماز میں سورہ رحمٰن تلاوت فرما رہے تھے۔ یہ 10 نبوی کا واقعہ ہے جب آپ سفر طائف سے واپسی پر نخلہ میں کچھ مدت ٹھیرے تھے۔ اگر چہ بعض دوسری روایات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس موقع پر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ معلوم نہ تھا کہ جن آپ سے قرآن سن رہے ہیں بلکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ وہ آپ کی تلاوت سن رہے تھے، لیکن یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو جِنوں کی سماعت قرآن پر مطلع فرمایا تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ ہی نے آپ کو یہ اطلاع بھی دے دی ہو کہ سورہ رحمٰن سنتے وقت وہ اس کا کیا جواب دیتے جا رہے تھے۔

ان روایات سے تو صرف اسی قدر معلوم ہوتا ہے کہ رحمٰن سور حجر اور سورہ احقاف سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ اس کے بعد ایک اور روایت ہمارے سامنے آتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔ ابن اسحاق حضرت عروہ بن زبیر سے یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک روز صحابہ کرام نے آپس میں کہا کہ قریش نے کبھی کسی کو علانیہ بآواز بلند قرآن پڑھتے نہیں سنا ہے، ہم میں کون ہے جو ایک دفعہ ان کو یہ کلام پاک سنا ڈالے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا میں یہ کام کرتا ہوں۔ صحابہ نے کہا ہمیں ڈر ہے کہ وہ تم پر زیادتی کریں گے۔ ہمارے خیال میں کسی ایسے شخص کو یہ کام کرنا چاہیے جس کا خاندان زبردست ہو، تاکہ اگر قریش کے لوگ اس پر دست درازی کریں تو اس کے خاندان والے اس کی حمایت پر اٹھ کھڑے ہوں۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا مجھے یہ کا کر ڈالنے دو، معرا محافظ اللہ ہے۔ پھر وہ دن چڑھے حرم میں پہنچے جبکہ قریش کے سردار وہاں اپنی اپنی مجلسوں میں بیٹھے تھے۔ حضرت عبداللہ نے مقام ابراہیم پر پہنچ کر پورے زور سے سورہ رحمٰن کی تلاوت شروع کر دی۔ قریش کے لوگ پہلے تو سوچتے رہے کہ عبداللہ کیا کہہ رہے ہیں۔ پھر جب انہیں پتہ چلا کہ  یہ وہ کلام ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے کلام کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں تو  وہ ان پر ٹوٹ پڑے اور ان کے منہ پر تھپڑ مارنے لگے۔ مگر حضرت عبداللہ نے پروانہ کی۔ پٹتے جاتے تھے اور پڑھتے جاتے تھے۔ جب تک ان کے دم میں دم رہا قرآن سنائے چلے گئے۔ آخر کار جب وہ اپنا سوجا ہوا منہ لے کر پلٹے تو ساتھیوں نے کہا ہمیں اسی چیز کا ڈر تھا۔ انہوں نے جواب دیا۔ آج سے بڑھ کر یہ خدا کے دشمن میرے لیے کبھی ہلکے نہ تھے، تم کہو تو کل پھر انہیں قرآن سناؤں۔ سب نے کہا، بس اتنا ہی کافی ہے۔ جو کچھ وہ نہیں سننا چاہتے تھے وہ تم نے انہیں سنا دیا (سیرۃ ابن ہشام، جلد اول، ص 336)۔

موضوع اور مضمون:

قرآن مجید کی یہ ایک ہی سورۃ ہے جس میں انسان کے ساتھ زمین کی دوسری با اختیار مخلوق، جنوں کو بھی براہ راست خطاب کیا گیا ہے، اور دونوں کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمالات، اس کے بے حد و حساب احسانات، اس کے مقابلہ کہ ان کی عاجزی و بے بسی اور اس کے حضور ان کی جوابدہی کا احساس دلا کر اس کی نافرمانی کے انجام بد سے ڈرایا گیا ہے اور فرمانبرداری کے بہترین نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے۔اگر چہ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر ایسی تصریحات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی طرح جن بھی ایک ذی اختیار اور جواب دہ مخلوق ہیں جنہیں کفر و ایمان اور طاعت و عصیان کی آزادی مخشی گئی ہے، اور ان میں بھی انسانوں ہی کی طرح کافر و مومن اور مطیع و سرکش پائے جاتے ہیں، اور ان کے اندر بھی ایسے گروہ موجود ہیں جو انبیاء علیہم السلام اور کتب آسمانی پر ایمان لائے ہیں، لیکن یہ سورۃ اس امر کی قطعی صراحت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور قرآن مجید کی دعوت جن اور انس دونوں کے لیے ہے اور حضورؐ کی رسالت صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے۔

سورۃ کے آغاز میں تو خطاب کا رخ انسانوں کی طرف ہی ہے، کیونکہ زمین کی خلافت ان ہی کو حاصل ہے، خدا کے رسول ان ہی میں سے آئے ہیں، اور خدا کی کتابیں ان ہی زبانوں میں نازل کی گئی ہیں، لیکن آگے چل کر آیت 13 سے انسان اور جن دونوں کی یکساں مخاطب کیا گیا ہے، اور ایک ہی دعوت دونوں کے سامنے پیش کی گئی ہے۔

سورۃ کے مضامین چھوٹے چھوٹے فقروں میں ایک خاص ترتیب سے ارشاد ہوئے ہیں :

آیت 1 سے 4 تک یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ اس قرآن کی تعلیم سے نوع انسانی کی ہدایت کا سامان کرے، کیونکہ انسان کو ایک ذی عقل و شعور مخلوق کی حیثیت سے اسی نے پیدا کیا ہے۔

آیت 5۔6 میں بتایا گیا ہے کہ کائنات کا سرا نظام  اللہ تعالیٰ کی فرمانروائی میں چل رہا ہے اور زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی تابع فرمان ہے۔ یہاں کوئی دوسرا نہیں ہے جس کی خدائی چل رہی ہو۔

آیت 7۔9 میں ایک دوسری اہم حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے اس پورے نظام کو ٹھیک ٹھیک تَوازن کے ساتھ عدل پر قائم کیا ہے اور اس نظام کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ اس میں رہنے والے اپنے حدود اختیار میں بھی عدل ہی پر قائم ہوں اور تَوازن نہ بگاڑیں۔

آیت 10 سے 25 تک اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عجائب و کمالات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ان نعمتوں کی طرف اشارے گئے ہیں جن سے انسان اور جن متمتع ہو رہے ہیں۔

آیت 26 سے 30 تک انسان اور جن دونوں کو یہ حقیقت یاد دلائی گئی ہے کہ اس کائنات میں ایک خدا کے سوا کوئی غیر فانی اور لازوال نہیں، اور چھوٹے سے بڑے تک کوئی موجود ایسا نہیں جو اپنے وجود اور ضروریات وجود کے لیے خدا  کا محتاج نہ ہو۔ زمین سے لے کر آسمانوں تک شب و روز جو کچھ بھی ہو رہا ہے اسی کی کار فرمائی سے ہو رہا ہے۔

آیت 31 سے 36 تک ان دونوں گروہوں کو خبر دار کیا گیا ہے کہ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب تم سے باز پرس کی جائے  گی۔ اس باز پرس سے بچ کر تم کہیں نہیں جا سکتے۔  خدا کی خدائی تمہیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔اس سے نکل کر بھاگ جانا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ اگر تم اس گھمنڈ میں مبتلا ہو کہ اس سے  بھاگ سکتے ہو تو بھاگ دیکھو۔

آیات 37۔38 میں بتا گیا ہے کہ یہ باز پرس قیامت کے روز ہونے والی ہے۔

آیت 39 سے 45 تک ان مجرم انسانوں اور جنوں کا انجام بتایا گیا ہے جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے رہے ہیں۔

اور آیت 46 سے آخرت سورت تک تفصیل کے ساتھ وہ انعامات بیان کیے گئے ہیں جو آخرت میں ان نیک انسانوں اور جنوں کو عطا کیے جائیں گے جنہوں نے دنیا میں خدا ترسی کی زندگی بسر کی ہے اور یہ سمجھتے ہوئے کام کیا ہے کہ ہمیں ایک روز اپنے رب کے سامنے پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ یہ پوری تقریر خطابت کی زبان میں ہے۔ ایک پر جوش اور نہایت بلیغ خطبہ ہے جس کے  دوران میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ایک ایک عجوبے، اور اس کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک ایک نعمت، اور اس کی سلطانی و قہاری کے مظاہر میں سے ایک ایک مظہر، اور اس کی جزاء و سزا کی تفصیلات میں سے ایک ایک چیز کو بیان کر کے بار بار جب و انس سے سوال کیا گیا ہے کہ فَبِاَیِّ اٰلَآ ءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّ بَا نِ۔ آگے چل کر ہم اس کی وضاحت کریں گے کہ آلاء ایک سویع المعنی لفظ ہے جس کو اس خطبے میں مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے، اور جن و انس سے یہ سوال ہر جگہ موقع و محل کے لحاظ سے اپنا ایک خاص مفہوم رکھتا ہے۔