آیات
62
وحی کی جگہ
مکہ
پہلے ہی لفظ ہی وَالنجم سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی مضمون کے لحاظ سے سورۃ کا عنوان نہیں ہے بلکہ محض علامت کے طور پر اس کا نام قرار دیا گیا ہے ۔
بخاری، مسلم، ابوداؤد اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ اَوَّلُ سَوْرَۃٍ اُنْزِلَتْ فِیھا سجدۃٌ النجم (پہلی سورۃ جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی النجم ہے )۔ اس حدیث کے جو اجزاء اسود بن یزید، ابواسحاق، اور زُہَیر بن معاویہ کی روایات میں حضرت ابن مسعود سے منقول ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن مجید کی وہ پہلی سورۃ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قریش کے ایک مجمع عام میں ( اور ابن مردوؤیہ کی روایت کے مطابق حَرَم میں)سنایا تھا۔ مجمع میں کافر اور مومن سب موجود تھے ۔آخر میں جب آپ نے آیت سجدہ پڑھ کر سجدہ فرمایا تو تمام حاضرین آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے اور مشرکین کے وہ بڑے بڑے سردار تک، جو مخالفت میں پیش پیش تھے سجدہ کیے بغیر نہ رہ سکے ۔ ابن مسعد و رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کفار میں سے سرف ایک شخص امیہ بن خَلَف کو دیکھا کہ اس نے سجدہ کرنے کے بجائے کچھ مٹی اٹھا کر اپنی پیشانی سے لگا لی اور کہا کہ میرے لیے بس یہی کافی ہے ۔ بعد میں میری آنکھوں نے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل ہوا۔
اس واقعہ دے دوسرے عینی شاہد حضرت مُطلب بن ابی وَداعَہ ہیں جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے ۔ نسائی اور مُسند احمد میں ان کا اپنی بیان یہ نقل ہوا ہے کہ جب حضورؐ نے سورہ نجم پڑھ کر سجدہ فرمایا اور سب حاضرین آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے تو میں نے سجدہ نہ کیا، اور اسی کی تلافی اب میں اس طرح کرتا ہوں کہ اس سورے کی تلاوت کے وقت سجدہ کبھی نہیں چھوڑتا۔ابن سعد کا بیان ہے کہ اس سے پہلے رجب 5 نبوی میں صحابہ کرام کی ایک مختصر سی جماعت حبش میں طرف ہجرت کر چکی تھی۔ پھر جب اسی سال رمضان میں یہ واقعہ پیش آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قریش کے مجمع عام میں سورہ نجم کی تلاوت فرمائی اور کافر و مومن سب آپ کے ساتھ سجدے میں گر گئے، تو حبش کے مہاجرین تک یہ قصہ اس شکل میں پہنچا کہ کفارمکہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ اس خبر کو سن کر ان میں سے کچھ لوگ شوال 5 نبوی میں مکہ واپس آ گئے۔مگر یہاں آ کر معلوم ہوا کہ ظلم کی چکی اسی طرح چل رہی ہے جس طرح پہلے چل رہی تھی، آخر کار دوسرے ہجرت حبشہ واقع ہوئی جس میں پہلی ہجرت سے بھی زیادہ لوگ مکہ چھوڑ کر چلے گئے۔
اس طرح یہ بات قریب قریب یقینی طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ یہ سورۃ رمضان 5 نبوی میں نازل ہوئی ہے ۔زمانہ نزول کی اس تفصیل سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کیا حالات تھے جن میں یہ سورہ نازل ہوئی۔ ابتدائے بعثت کے بعد سے پانچ سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صرف نجی صحبتوں اور مخصوص مجلسوں ہی میں اللہ کا کلام سنا سنا کر لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دیتے رہے تھے ۔ اس پوری مدت میں آپ کو کبھی کسی مجمع عام میں قرآن سنانے کا موقعنہ مل سکا تھا، کیونکہ کفار کی سخت مزاحمت اس میں مانع تھی۔ ان کو اس امر کا خوب اندازہ تھا کہ آپ کی شخصیت اور آپ کی تبلیغ میں سک بال کہ کشش، اور قرآن مجید کی آیات میں کس غضب کی تاثیر ہے ۔اس لیے وہ کوشش کرتے تھے کہ اس کلام کو نہ خود نہیں نہ کسی کو سننے دیں، اور آپ کے خلاف طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلا کر محض اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کے زور سے آپ کی دعوت کو دبا دیں۔ اس غرض کے لیے ایک طرف تو وہ جگہ جگہ یہ مشہور کرتے پھر رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم بہک گئے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے درپے ہیں۔ دوسری طرف ان کا یہ مستقل طریق کار تھا کہ جہاں بھی آپ قرآن سنانے کی کوشش کریں وہاں شور مچا دیا جائے تاکہ لوگ یہ جان ہی نہ سکیں کہ وہ بات کیا ہے جس کی بنا پر آپ کو گمراہ اور بہکا ہوا آدمی قرار دیا جا رہا ہے ۔
ان حالات میں ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حرم پاک میں جہاں قریش کے لوگوں کا ایک بڑا مجمع موجود تھا، یکایک تقریر کرنے کھڑے ہو گئے اور اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی زبان مبارک پر یہ خطبہ جاری ہوا جو سورہ نجم کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔اس کلام کی شدت تاثیر کا حال یہ تھا کہ جب آپ نے اسے سنانا شروع کیا تو مخالفین کو اس پر شور مچانے کا ہوش ہی نہ رہا، اور خاتمے پر جب آپ نے سجدہ فرمایا تو وہ بھی سجدے میں گر گئے۔ بعد میں انہیں سخت پریشانی لاحق ہوئی کہ یہ ہم سے کیا کمزوری سرد ہو گئی، اور لوگوں نے بھی انہیں اس پر مطعون کرنا شروع کیا کہ دوسروں کو تو یہ کلام سننے سے منع کرتے تھے ، آج خود اسے نہ صرف کان لگا کر سنا بلکہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سجدہ بھی کر گزرے ۔ آخر کار انہوں نے یہ بات بنا کر اپنا پیچھا چھڑایا کہ صاحب ہمارے کانوں نے تو : اَفَرْءَیْتُمُ اللّٰتَ وَا لْعزّیٰ۔ وَمَنٰوۃَ الثَّا لِثَۃَ الْقُخْریٰ کے بعد محمدؐ کی زبان سے یہ الفاظ سنے تھے تلک الغرانقۃ العُلیٰ، وان شفا گتھنا لتر جیٰ (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے )، اس لیے ہم نے سمجھا کہ محمدؐ ہمارے طریقے پر واپس آ گئے ہیں۔ حالانکہ کوئی پاگل آدمی ہی یہ سوچ سکتا تھا کہ اس پوری سورۃ کے سیاق و سباق میں ان فقروں کی بھی کوئی جگہ ہو سکتی ہے جو ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے کانوں نے سنے ہیں(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم،الحج، حواشی 96 تا 101 )۔تقریر کا موضوع کفار مکہ کو اس رویے کی غلطی پر متنبہ کرنا ہے جو وہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں اختیار کیے ہوئے تھے ۔
کلام کا آغاز اس طرح فرمایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم بہکے اور بھٹکے ہوئے آدمی نہیں ہیں، جیسا کہ تم ان کے متعلق مشہور کرتے پر رہے ہو، اور نہ اسلام کی یہ تعلیم اور دعوت انہوں نے خود اپنے دل سے گھڑ لی ہے ، جیسا کہ تم اپنے نزدیک سمجھے بیٹھے ہو، بلکہ جو کچھ وہ پیش کر رہے ہیں وہ خالص وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے ۔ جن حقیقتوں کو وہ تمہارے سامنے بیان کرتے ہیں وہ ان کے اپنے قیاس و گمان کی آفریدہ نہیں ہیں بلکہ ان کی آنکھوں دیکھی حقیقتیں ہیں۔ انہوں نے اس فرشتے کو خود دیکھا ہے جس کے ذریعہ سے ان کو یہ علم دیا جاتا ہے ۔ انہیں اپنے رب کی عظیم نشانیوں کا براہ راست مشاہدہ کرایا گیا ہے ۔وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں سوچ کر نہیں دیکھ کر کہہ رہے ہیں۔ ان سے تمہارا جھگڑنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی اندھا آنکھوں والے سے اس چیز پر جھگڑے جو اسے نظر نہیں آتی اور آنکھوں والے کو نظر آتی ہے ۔اس کے بعد علی الترتیب تین مضامین ارشاد ہوئے ہیں:
اوّلاً سامعین کو سمجھایا گیا ہے کہ جس دین کی تم پیروی کر رہے ہو اس کی بنیاد محض گمان اور من مانے مفروضات پر قائم ہے ۔ تم نے لات اور منات اور عزّیٰ جیسی چند دیویوں کے معبود بنا رکھا ہے ، حالانکہ اُلوہیت میں برائے نام بھی ان کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ تم نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے رکھا ہے ،حالانکہ خود اپنے لی تم بیٹی کو عار سمجھتے ہو۔ تم نے اپنے نزدیک یہ فرض کر لیا ہے کہ تمہارے یہ معبود اللہ تعالیٰ سے تمہارے کام بنوا سکتے ہیں، حالانکہ تمام ملائکہ، مقربین مل کر بھی اللہ سے اپنی کوئی بات نہیں منوا سکتے ۔ اس طرح کے عقائد جو تم نے اختیار کر رکھے ہیں، ان میں سے کوئی عقیدہ بھی کسی علم اور دلیل پر مبنی نہیں ہے ، بلکہ کچھ خواہشات ہیں جن کی خاطر تم بعض اوہام کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہو۔ یہ ایک بہت بڑی بنیادی غلطی ہے جس میں تم لوگ مبتلا ہو۔ دین وہی صحیح ہے جو حقیقت کے مطابق ہو۔ اور حقیقت لوگوں کی خواہشات کی تابع نہیں ہوا کرتی کہ جسے وہ حقیقت سمجھ بیٹھیں وہی حقیقت ہو جائے۔ اس سے مطابقت کے لیے قیاس و گمان کام نہیں دیتا، بلکہ اس کے لیے علم درکار ہے ۔ وہ علم تمہارے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو تم اس سے منہ موڑتے ہو اور الٹا اس شخص کو گمراہ ٹھیراتے ہو جو تمہیں صحیح بات بتا رہا ہے ۔ اس غلطی میں تمہارے مبتلا ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ تمہیں آخرت کی کوئی فکر نہیں ہے ، بس دنیا ہی تمہاری مطلوب بنی ہوئی ہے ۔ اس لیے نہ تمہیں حقیقت کو کوئی طلب ہے ،نہ اس بات کی کوئی پروا کہ جن عقائد کی تم پیروی کر رہے ہو وہ حق کے مطابق ہیں یا نہیں۔ثانیاً لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ ہی ساری کائنات کا مالک و مختار ہے ۔ راست رو وہ ہے جو اس کے راستے پر ہو، اور گمراہ وہ جو اس کی راہ سے ہٹا ہوا ہو۔ گمراہ کی گمراہی اور راست رو کی راست روی اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے ۔ ہر ایک کے عمل کو وہ جانتا ہے اور اس کے ہاں لازماً برائی کا بدلہ برا اور بھلائی کا بدلہ بھلا مل کر رہنا ہے ۔ اصل فیصلہ اس پر نہیں ہوتا کہ تم اپنے زعم میں اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو اور اپنی زبان سے اپنی پاکیزگی کے کتنے لمبے چوڑے دعوے کرتے ہو، بلکہ فیصلہ اس اس پر ہونا ہے کہ خدا کے علم میں تم متقی ہو یا نہیں۔ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو تو اس کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ چھوٹے چھوٹے قصوروں سے وہ در گزر فرمائے گا۔
ثالثاً، دین حق کے وہ چند بنیادی امور لوگوں کے سامنے پیش کیے گئے ہیں جو قرآن مجید کے نزول سے صدہا برس پہلے حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کے صحیفوں میں بیان ہو چکے تھے ، تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں نہ رہی کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کوئی نیا اور نرالا دین لے آئے ہیں، بلکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ یہ وہ اصلی حقائق ہیں جو ہمیشہ سے خدا کے نبی بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ اس کے ساتھ ان ہی صحیفوں سے یہ بات بھی نقل کر دی گئی ہے کہ عاد اور ثمود اور قوم نوح اور قوم لوط کی تباہی اتفاقی حوادث کا نتیجہ نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسی ظلم و طغیان کی پاداش میں ان کو ہلاک کیا تھا جس سے باز آنے پر کفار مکہ کسی طرح آمادہ نہیں ہو رہے ہیں۔یہ مضامین ارشاد فرمانے کے بعد تقریر کا خاتمہ اس بات پر کیا گیا ہے کہ فیصلے کی گھڑی قریب آ لگی ہے جسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہے ۔ اس گھڑی کے آنے سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور قرآن مجید کے ذریعہ سے تم لوگوں کو اسی طرح خبردار کیا جا رہا ہے جس طرح پہلے لوگوں کے خبردار کیا گیا تھا۔اب کیا یہی وہ بات ہے جو تمہیں انوکھی لگتی ہے ؟ جس کی تم ہنسی اڑاتے ہو؟ باز آ جاؤ اپنی اس روش سے جھک جاؤ اللہ کے سامنے اور اسی کی بندگی کرو۔
یہی وہ مؤثر خاتمہ کلام تھا جسے سن کر کٹے سے کٹے منکرین بھی ضبط نہ کر سکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب کلام الٰہی کے یہ فقرے ادا کر کے سجدہ کیا تو وہ بھی بے اختیار سجدے میں گر گئے۔