آیات
29
وحی کی جگہ
مدینہ
پہلی ہی آیت کے الفاظ انا فتحنا لک فتحا مبینا سے ماخوذ ہے۔ یہ محض اس سورت کا نام ہی نہیں بلکہ مضمون کے لحاظ سے بھی اس کا عنوان ہے کیونکہ اس میں اس فتح عظیم پر کلام کیا گیا ہے جو صلح حدیبیہ کی شکل میں اللہ تعالٰی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کو عطا فرمائی تھی۔
روایات اس پر متفق ہیں کہ اس کا نزول ذی القعدہ 6ھ میں اس وقت ہوا تھا جب آپ کفار مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنے کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لے جا رہے تھے
جن واقعات کے سلسلے میں یہ سورت نازل ہوئی ان کی ابتدائی اس طرح ہوئی ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ معظمہ تشریف لے گئے ہیں اور وہاں عمرہ ادا فرمایا ہے۔ پیغمبر کا خواب ظاہر ہے کہ محض خواب و خیال نہ ہو سکتا تھا وہ تو وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور آگے چل کر آیت 27 میں اللہ تعالٰی نے توثیق کر دی ہے کہ یہ خواب ہم نے اپنے رسول کو دکھایا تھا۔ اس لیے در حقیقت یہ نرا خواب نہ تھا بلکہ ایک الٰہی اشارہ تھا جس کی پیروی کرنا حضور کے لیے ضروری تھا۔ بظاہر اسباب اس ہدایت پر عمل کرنے کی کوئی صورت ممکن نظر نہ آتی تھی۔ کفار قریش نے 6 سال سے مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا راستہ بند کر رکھا تھا اور اس پوری مدت میں کسی مسلمان کو انہوں نے حج اور عمرے تک کے لیے حدود حرم کے قریب نہ پھٹکنے دیا تھا۔ اب آخر یہ کیسے توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو صحابہ کی ایک جمعیت کے ساتھ مکہ میں داخل ہونے دیں گے۔ عمرے کا احرام باندھ کر جنگی ساز و سامان ساتھ لیے ہوئے نکلنا گویا خود لڑائی کو دعوت دینا تھا اور غیر مسلح جانے کے معنی اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان خطرے میں ڈالنے کے تھے۔ ان حالات میں کوئی شخص یہ نہ سمجھ سکتا تھا کہ اللہ تعالٰی کے اس اشارے پر عمل کیا جائے تو کیسے۔ مگر پیغمبر کا منصب یہ تھا کہ اس کا رب جو حکم بھی اس کو دے وہ بے کھٹکے اس پر عمل کر گذرے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلا تامل اپنا خواب صحابہ کرام کو سنا کر سفر کی تیاری شروع کر دی۔ آس پاس کے قبائل میں بھی آپ نے اعلان عام کرا دیا کہ ہم عمرے کے لیے جا رہے ہیں جو ہمارے ساتھ چلنا چاہے وہ آ جائے۔ جن لوگوں کی نگاہ ظاہری اسباب پر تھی انہوں نے سمجھا کہ یہ لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی آپ کے ساتھ چلنے پر آمادہ نہ ہوا۔ مگر جو اللہ اور اس کے رسول پر سچا ایمان رکھتے تھے انہیں اس امر کی کوئی پروا نہ تھی کہ انجام کیا ہوگا۔ ان کے لیے بس یہ کافی تھا کہ اللہ کا اشارہ ہے اور اس کا رسول تعمیلِ حکم کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس کے بعد کوئی چیز ان کو رسول خدا کا ساتھ دینے سے روک نہ سکتی تھی۔ 1400 صحابی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معیت میں اس نہایت خطرناک سفر پر جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ ذی القعدہ 6ھ کے آغاز میں یہ مبارک قافلہ مدینہ سے روانہ ہوا۔ ذوالحلیفہ پہنچ کر سب نے عمرے کا احرام باندھا۔ قربانی کے لیے 70 اونٹ ساتھ لیے جن کی گردنوں میں ھدی کی علامت کے طور پر قلاوے پڑے ہوئے تھے۔ پرتلوں میں صرف ایک ایک تلوار رکھ لی جس کی تمام زائرین حرم کو عرب کے معروف قاعدے کے مطابق اجازت تھی اور اس کے سوا کوئی سامان جنگ ساتھ نہ لیا۔ اس طرح یہ قافلہ لبیک لبیک کی صدائیں بلند کرتا ہوا بیت اللہ کی طرف چل پڑا۔ اس وقت مکہ اور مدینے کے تعلقات کی جو نوعیت تھی، عرب کا بچہ بچہ اس کو جانتا تھا۔ ابھی پچھلے سال ہی تو شوال 5ھ میں قریش نے قبائل عرب کی متحدہ طاقت کے ساتھ مدینے پر چڑھائی کی تھی اور غزوہ احزاب کا مشہور معرکہ پیش آ چکا تھا۔ اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اتنے بڑے قافلے کے ساتھ اپنے خون کے پیاسے دشمنوں کے گھر کی طرف روانہ ہوئے تو پورے عرب کی نگاہیں اس عجیب سفر کی طرف مرکوز ہو گئیں اور لوگوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ یہ قافلہ لڑنے کے لیے نہیں جا رہا ہے بلکہ ماہ حرام میں، احرام باندھ کر، ھدی کے اونٹ ساتھ لیے ہوئے بیت اللہ کا طواف کرنے جا رہا ہے اور قطعی طور پر غیر مسلح ہے۔ قریش کے لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس اقدام نے سخت پریشانی میں ڈال دیا۔ ذی القعدہ کا مہینہ ان حرام مہینوں میں سے تھا جو صد ہا برس سے عرب میں حج و زیارت کے لیے محترم سمجھے جا تےتھے۔ اس مہینے میں جو قافلہ احرام باندھ کر حج یا عمرے کے لیے جا رہا ہو اسے روکنے کا کسی کو حق نہ تھا، حتٰی کہ کسی قبیلے سے اس کی دشمنی بھی ہو تو عرب کے مسلمہ قوانین کی رو سے وہ اپنے علاقے سے اس کے گذرنے میں مانع نہ ہو سکتا تھا۔ قریش کے لوگ اس الجھن میں پڑ گئے کہ اگر ہم مدینے کے اس قافلے پر حملہ کر کے اسے مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے روکتے ہیں تو پورے ملک میں اس پر شور مچ جائے گا۔ عرب کا ہر شخص پکار اٹھے گا کہ یہ سراسر زیادتی ہے۔ تمام قبائل عرب یہ سمجھیں گے کہ ہم خانہ کعبہ کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ ہر قبیلہ اس تشویش میں مبتلا ہو جائے گا کہ آئندہ کسی کو حج اور عمرہ کرنے دینا یا نہ کرنے دینا اب ہماری مرضی پر موقوف ہے، جس سے بھی ہم ناراض ہو گے اسے بیت اللہ کی زیارت کرنے سے اسی طرح روک دیں گے جس طرح آج مدینے کے ان زائرین کو روک رہے ہیں۔ یہ ایسی غلطی ہوگی کہ جس سے سارا عرب ہم سے منحرف ہو جائے گا۔ لیکن اگر ہم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اتنے بڑے قافلے کے ساتھ بخیریت اپنے شہر میں داخل ہو جانے دیتے ہیں تو پورے ملک میں ہماری ہوا اکھڑ جائے گی اور لوگ کہیں گے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرعوب ہو گئے۔ آخر کار بڑی شش و پنج کے بعد ان کی جاہلانہ حمیت ہی ان پر غالب آ کر رہی اور انہوں نے اپنی ناک کی خاطر یہ فیصلہ کر لیا کہ کسی قیمت پر بھی اس قافلے کو شہر میں داخل نہیں ہونے دینا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنی کب کے ایک شخص کو مخبر کی حیثیت سے آگے بھیج رکھا تھا تاکہ وہ قریش کے ارادوں اور ان کی نقل و حرکت سے آپ کو بروقت مطلع کرتا رہے۔ جب آپ عسفان پہنچے تو اس نے آکر آپ کو اطلاع دی کہ قریش کے لوگ پوری تیاری کے ساتھ ذی طویٰ کے مقام پر پہنچ گئے ہیں اور خالد بن ولید کو انہوں نے 200 سواروں کے ساتھ کراع الغمیم کی طرف آگے بھیج دیا ہے تاکہ وہ آپ کا راستہ روکیں۔ قریش کی چال یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح آنحضرت کے ساتھیوں سے چھیڑ چھاڑ کر کے ان کو اشتعال دلائیں اور پھر اگر لڑائی ہو جائے تو پورے ملک میں یہ مشہور کر دیں کہ یہ لوگ دراصل آئے تھے لڑنے کے لیے، مگر بہانہ انہوں نے عمرے کا کیا تھا اور احرام محض دھوکہ دینے کے لیے باندھ رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ اطلاع پاتے ہی فوراً راستہ بدل دیا اور ایک نہایت دشوار گذار راستہ سے سخت مشقت اٹھا کر حدیبیہ کے مقام پر پہنچ گئے جو عین حرم کی سرحد پر واقع تھا۔ یہاں بنی خزاعہ کا سردار بدیل بن ورقا اپنے قبیلے کے چند آدمیوں کے ساتھ آپ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ آپ کس غرض کے لیے آئے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے، صرف بیت اللہ کی زیارت اور اس کا طواف ہمارے پیش نظر ہے۔ یہی بات ان لوگوں نے جا کر قریش کے سرداروں کو بتا دی اور ان کو مشورہ دیا کہ وہ ان زائرین حرم کا راستہ نہ روکیں۔ مگر وہ اپنی ضد پر اڑے رہے اور انہوں نے احابیش کے سردار حلی بن علقمہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے پاس بھیجا تاکہ وہ آپ کو واپس جانے پر آمادہ کرے۔ سردارانِ قریش کا مقصد یہ تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی بات نہ مانیں گے تو وہ ان سے ناراض ہو کر پلٹے گا اور پھر احابیش کی پوری طاقت ہمارے ساتھ ہوگی۔مگر جب اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ سارا قافلہ احرام بند ہے، ھدی کے اونٹ سامنے کھڑے ہیں جن کی گردنوں میں قلاوے پڑے ہوئے ہیں، اور یہ لوگ لڑنے کے لیے نہیں بلکہ بیت اللہ کا طواف کرنے کے لیے آئے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کوئی بات کیے بغیر مکہ کی طرف پلٹ گیا اور اس نے جا کر قریش کے سرداروں سے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ لوگ بیت اللہ کی عظمت مان کر اس کی زیارت کے لیے آئے ہیں اگر تم ان کو روکو گے تو احابیش اس کام میں تمہارا ساتھ ہرگز نہ دیں گے۔ ہم تمہارے حلیف اس لیے نہیں بنے ہیں کہ تم حرمتوں کو پامال کرو اور ہم اس میں تمہاری حمایت کریں۔ پھر قریش کی طرف سے عروہ بن مسعود ثقفی آیا اور اس نے اپنے نزدیک بڑی اونچ نیچ سمجھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہا کہ آپ مکہ میں داخل ہونے کے ارادے سے باز آجائیں، مگر آپ نے اس کو بھی وہی جواب دیا جو بنی خزاعہ کے سردار کو دیا تھا کہ ہم لڑائی کے ارادے سے نہیں آئے ہیں بلکہ بیت اللہ کی تعظیم کرنے والے بن کر ایک دینی فریضہ بجا لانے کے لیے آئے ہیں۔ واپس جا کر عروہ نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی گیا ہوں، مگر خدا کی قسم، میں نے اصحاب محمد کو جس طرح محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فدائی دیکھا ہے ایسا منظر کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے ہاں بھی نہیں دیکھا۔ ان لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ محمد وضو کرتے ہیں تو ان کے اصحاب پانی کا ایک قطرہ تک زمین پر نہیں گرنے دیتے اور سب اپنے جسم پر کپڑوں پر مل لیتے ہیں۔ اب تو لوگ سوچ لو کہ تمہارا مقابلہ کس سے ہے۔ اس دوران جبکہ ایلچیوں کی آمدورفت اور گفت و شنید کا یہ سلسلہ جاری تھا، قریش کے لوگ بار بار یہ کوشش کرتے رہے کہ چپکے سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کیمپ پر چھاپے مار کر صحابہ کو اشتعال دلائیں اور کسی نہ کسی طرح ان سے کوئی ایسا اقدام کرا لیں جس سے لڑائی کا بہانہ ہاتھ آ جائے۔ مگر ہر مرتبہ صحابہ کے صبر و ضبط اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی حکمت و فراست نے ان کی ساری تدبیروں کو ناکام کر دیا۔ ایک دفعہ ان کے چالیس پچاس آدمی رات کے وقت آئے اور مسلمانوں کے پڑاؤ پر پتھر اور تیر برسانے لگے۔ صحابہ نے ان سب کو گرفتار کر کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے پیش کر دیا۔ مگر آپ نے ان سب کو چھوڑ دیا۔ ایک اور موقع پر تنعیم کی طرف سے 80 آدمی عین نماز فجر کے وقت آئے اور انہوں نے اچانک چھاپہ مار دیا۔ یہ لوگ بھی پکڑے گئے، مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے انہیں بھی رہا کر دیا۔ اس طرح قریش کی اپنی ہر چال اور ہر تدبیر میں ناکامی ہوتی چلی گئی۔ آخر کار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود اپنی طرف سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ایلچی بنا کر مکہ بھیجا اور ان کے ذریعے سے سرداران قریش کو یہ پیغام دیا کہ ہم جنگ کے لیے نہیں بلکہ زیارت کے لیے ھدی ساتھ لے کر آئے ہیں، طواف اور قربانی کر کے واپس چلے جائیں گے۔ مگر وہ لوگ نہ مانے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ ہی میں روک لیا۔ اس دوران یہ خبر اڑ گئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قتل کر دیے گئے ہیں، اور ان کے واپس نہ آنے سے مسلمانوں کو یقین ہو گیا کہ یہ خبر سچی ہے۔ اب مزید تحمل کا کوئی موقع نہ تھا۔ مکہ میں داخلہ کی بات تو دوسری تھی، اس کے لیے طاقت کا استعمال ہر گز پیش نظر نہ تھا۔ مگر جب نوبت سفیر کے قتل تک پہنچ گئی تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا کہ مسلمان جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کیا اور ان سے اس بات پر بیعت لی کہ اب یہاں سے ہم مرتے دم تک پیچھے نہ ہٹیں گے۔ موقع کی نزاکت نگاہ میں ہو تو آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ کوئی معمولی بیعت نہ تھی۔ مسلمان صرف 1400 تھے اور کسی سامان جنگ کے بغیر آئے تھے۔ اپنے مرکز سے ڈھائی سو میل دور، عین مکہ کی سرحد پر ٹھیرے ہوئے تھے، جہاں دشمن اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان پر حملہ آور ہو سکتا تھا اور گرد و پیش سے اپنے حامی قبیلوں کو لا کر بھی انہیں گھیرے میں لے سکتا تھا۔ اس کے باوجود ایک شخص کے سوا پورا قافلہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ پر مرنے مارنے کی بیعت کرنے کے لیے بلا تامل آمادہ ہو گیا۔ اس سے بڑھ کر ان لوگوں کو اخلاص ایمانی اور راہ خدا میں ان کی فدائیت کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ یہی وہ بیعت ہے جو بیعت رضوان کے نام سے تاریخ اسلام میں مشہور ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر غلطی تھی۔ وہ خود بھی واپس آ گئے اور قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو کی قیادت میں ایک وفد بھی صلح کی بات چیت کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کیمپ میں پہنچ گیا۔ اب قریش اپنی اس ضد سے ہٹ گئے تھے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو سرے سے مکہ میں داخل ہی نہ ہونے دیں گے۔ البتہ اپنی ناک بچانے کے لیے ان کا صرف یہ اصرار تھا کہ آپ اس سال واپس چلے جائیں، آئندہ سال آپ عمرے کے لیے آ سکتے ہیں۔ طویل گفت و شنید کے بعد جن شرائط پر صلح نامہ لکھا گیا وہ یہ تھیں:
1. دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی، اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ اور علانیہ کوئی کاروائی نہ کی جائے گی۔2. اس دوران قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جائے گا اسے آپ واپس کر دیں گے اور آپ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا اسے وہ واپس نہ کریں گے۔
3. قبائل عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا اسے اس کا اختیار ہوگا۔4. محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سال واپس جائیں گے اور آئندہ سال وہ عمرے کے لیے آ کر تین دن مکہ میں ٹھیر سکتے ہیں، بشرطیکہ پرتلوں میں صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں اور کوئی سامان حرب ساتھ نہ لائیں۔ ان تین دنوں میں اہل مکہ ان کے لیے شہر خالی کر دیں گے (تاکہ کسی تصادم کی نوبت نہ آئے)۔ مگر واپس جاتے ہوئے وہ یہاں کے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے جانے کے مجاز نہ ہوں گے۔جس وقت اس معاہدے کی شرائط طے ہو رہی تھیں، مسلمانوں کا پورا لشکر سخت مضطرب تھا۔ کوئی شخص بھی ان مصلحتوں کو نہیں سمجھ رہا تھا جنہیں نگاہ میں رکھ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ شرائط قبول فرما رہے تھے۔ کسی کی نظر اتنی دور رس نہ تھی کہ اس صلح کے نتیجے میں جو خیر عظیم رونما ہونے والی تھی اسے دیکھ سکے۔ کفار قریش اسے اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے اور مسلمان اس پر بے تاب تھے کہ ہم آخر دب کر یہ ذلیل شرائط کیوں قبول کریں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے بالغ النظر مدبر تک کا یہ حال تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کے بعد کبھی میرے دل میں شک نے راہ نہ پائی تھی،مگر اس موقع پر میں بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا۔ وہ بے چین ہو کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا "کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟ پھر آخر ہم اپنے دین کے معاملے میں یہ ذلت کیوں اختیار کریں؟" انہوں نے جواب دیا "اے عمر! وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ ان کو ہر گز ضائع نہ کرے گا"۔ پھر ان سے صبر نہ ہوا جاکر یہی سوالات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھی کیے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ان کو ویسا ہی جواب دیا جیسا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دیا تھا۔ بعد میں حضرت عمر مدتوں اس پر نوافل اور صدقات ادا کرتے رہے تاکہ اللہ تعالٰی اس گستاخی کو معاف فرما دے جو اس روز ان سے شان رسالت میں ہو گئی تھی۔
سب سے زیادہ دو باتیں اس معاہدے میں لوگوں کو بری طرح کَھل رہی تھیں۔ ایک شرط نمبر 2 جس کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ یہ صریح نامساوی شرط ہے۔ اگر مکہ سے بھاگ کر آنے والوں کو ہم واپس کریں تو مدینہ سے بھاگ کر جانے والے کو کیوں نہ واپس کریں؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر فرمایا جو ہمارے ہاں سے بھاگ کر ان کے پاس چلا جائے وہ آخر ہمارے کس کام کا ہے؟ اللہ اسے ہم سے دور ہی رکھے۔ اور جو ان کے ہاں سے بھاگ کر ہمارے پاس آ جائے اسے اگر ہم واپس کر دیں گے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی کوئی اور صورت پیدا فرما دے گا۔ دوسری چیز جو لوگوں کے دلوں میں کھٹک رہی تھی وہ چوتھی شرط تھی۔ مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ اسے ماننے کے معنی یہ ہیں کہ تمام عرب کے سامنے گویا ہم ناکام واپس جا رہے ہیں۔ مزید براں یہ سوال بھی دلوں میں خلش پیدا کر رہا تھا کہ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواب میں دیکھا تھا کہ ہم مکہ میں طواف کر رہے ہیں،مگر یہاں تو ہم طواف کیے بغیر واپس جانے کی شرط مان رہے ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر لوگوں کو سمجھا کہ خواب میں آخر اسی سال طواف کرنے کی صراحت تو نہ تھی۔ شرائطِ صلح کے مطابق اس سال نہیں تو اگلے سال انشاء اللہ طواف ہوگا۔جلتی پر تیل کا کام جس واقعہ نے کیا وہ یہ تھا کہ عین اس وقت جب صلح کا معاہدہ لکھا جا رہا تھا، سہیل بن عمرو کے اپنے صاحبزادے ابو جندل، جو مسلمان ہو چکے تھے اور کفار مکہ نے ان کو قید کر رکھا تھا، کسی نہ کسی طرح بھاگ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کیمپ میں پہنچ گئے۔ ان کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فریاد کی کہ مجھے اس حبس بے جا سے نجات دلائی جائے۔ صحابہ کرام کے لیے یہ حالت دیکھ کر ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔ مگر سہیل بن عمرو نے کہا کہ صلح نامے کی تحریر چاہے مکمل نہ ہوئی ہو، شرائط تو ہمارے اور آپ کے درمیان طے ہو چکی ہیں، اس لیے اس لڑکے کو میرے حوالے کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی حجت تسلیم فرما لی اور ابو جندل ظالموں کے حوالے کر دیے گئے۔
صلح سے فارغ ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اب یہیں قربانی کر کے سر منڈواؤ اور احرام ختم کر دو۔ مگر کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ حکم دیا، مگر صحابہ پر اس وقت رنج و غم اور دل شکستگی کا ایسا شدید غلبہ تھا کہ انہوں نے اپنی جگہ سے حرکت نہ کی۔ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پورے دور رسالت میں اس ایک موقع کے سوا کبھی یہ صورت پیش نہ آئی تھی کہ آپ صحابہ کو حکم دیں اور وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑ نہ پڑیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس پر سخت صدمہ ہوا اور آپ نے اپنے خیمے میں جا کر ام المومنین حضرت ام سلمہ سے اپنی کبیدہ خاطری کا اظہار فرمایا۔ انہوں نےعرض کیا کہ آپ بس خاموشی کے ساتھ تشریف لے جا کر خود اپنا اونٹ ذبح فرمائیں اور حجام کو بلا کر اپنا سر منڈوا لیں۔ اس کے بعد لوگ خود بخود آپ کے عمل کی پیروی کریں گے اور سمجھ لیں گے کہ جو فیصلہ ہو چکا ہے وہ اب بدلنے والا نہیں ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور آپ کے فعل کو دیکھ کر لوگوں نے بھی قربانیاں کر لیں، سر منڈوا لیے یا بال ترشوا لیے اور احرام سے نکل آئے۔ مگر دل ان کے غم سے کٹے جا رہے تھے۔اس کے بعد جب یہ قافلہ حدیبیہ کی صلح کو اپنی شکست اور ذلت سمجھتا ہوا مدینہ کی طرف واپس جا رہا تھا، اس وقت ضجنان کے مقام پر (یا بقول بعض کراع الغمیم کے مقام پر) یہ سورت نازل ہوئی، جس نے مسلمانوں کو بتایا کہ یہ صلح جس کو وہ شکست سمجھ رہے ہیں دراصل فتح عظیم ہے۔ اس کے نازل ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا آج مجھ پر وہ چیز نازل ہوئی ہے جو میرے لیے دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے۔ پھر یہ سورت آپ نے تلاوت فرمائی اور خاص طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر اسے سنایا کیونکہ وہ سب سے زیادہ رنجیدہ تھے۔
اگرچہ اہل ایمان تو اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد سن کر ہی مطمئن ہو گئے تھے، مگر کچھ زیادہ مدت نہ گذری تھی کہ اس صلح کے فوائدایک ایک کرتے کھلتے چلے گئے یہاں تک کہ کسی کو بھی اس امر میں شک نہ رہا کہ فی الواقع یہ صلح ایک عظیم الشان فتح تھی۔ 1. اس میں پہلی مرتبہ عرب میں اسلامی ریاست کا وجود باقاعدہ تسلیم کیا گیا۔ اس سے پہلے تک عربوں کی نگاہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کی حیثیت محض قریش اور قبائل عرب کے خلاف خروج کرنے والے ایک گروہ کی تھی اور ان کو برادری باہر (Outlaw
) سمجھتے تھے۔ اب خود قریش ہی نے آپ سے معاہدہ کر کے سلطنت اسلامی کے مقبوضات پر آپ کا اقتدار مان لیا اور قبائل عرب کے لیے یہ دروازہ بھی کھول دیا کہ ان دونوں سیاسی طاقتوں میں سےجس کے ساتھ چاہیں حلیفانہ معاہدات کرلیں۔2. مسلمانوں کے لیے زیارت بیت اللہ کا حق تسلیم کر کے قریش نے آپ سے آپ گویا یہ بھی مان لیا کہ اسلام کوئی بے دینی نہیں ہے جیسا کہ وہ اب تک کہتے چلے آ رہے تھے، بلکہ عرب کے مسلمہ ادیان میں سے ایک ہے اور دوسرے عربوں کی طرح اس کے پیرو بھی حج و عمرہ کے مناسک ادا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس سے اہل عرب کے دلوں کی وہ نفرت کم ہو گئی جو قریش کے پروپیگنڈا سے اسلام کے خلاف پیدا ہو گئی تھی۔
3. دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ہو جانے سے مسلمانوں کو امن میسر آ گیا اور انہوں نے عرب تمام اطراف و نواح میں پھیل کر اس تیزی سے اسلام کی اشاعت کی کہ صلح حدیبیہ سے پہلے پورے 19 سال میں اتنے آدمی مسلمان نہ ہوئے تھے جتنے اس کے بعد دو سال کے اندر ہو گئے۔ یہ اسی صلح کی برکت تھی کہ یا تو وہ وقت تھا جب حدیبیہ کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ 1400 آدمی آئے تھے، یا دو ہی سال کے بعد جب قریش کی عہد شکنی کے نتیجے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ پر چڑھائی کی تو دس ہزار کا لشکر آپ کے ہمرکاب تھا۔4. قریش کی طرف سے جنگ بند ہوجانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ موقع مل گیا کہ اپنے مقبوضات میں اسلامی حکومت کو اچھی طرح مستحکم کر لیں اور اسلامی قانون کے اجراء سے مسلم معاشرے کو ایک مکمل تہذیب و تمدن بنا دیں۔ یہی و ہ نعمت عظمٰی ہے جس کے متعلق اللہ تعالٰی نے سورہ مائدہ کی آیت 3 میں فرمایا کہ "آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے"۔
5. قریش سے صلح کے بعد جنوب کی طرف سے اطمینان نصیب ہو جانے کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں نے شمال{زیر}} عرب اور وسطِ عرب کی تمام مخالف طاقتوں کو با آسانی مسخر کر لیا۔ صلح حدیبیہ پر تین ہی مہینے گذرے تھے کہ یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ خیبر فتح ہو گیا اور اس کے بعد فدک، وادی القریٰ، تیما اور تبوک کی یہودی بستیاں اسلام کے زیر نگیں آتی چلی گئیں۔ پھر وسطِ عرب کے وہ تمام قبیلے بھی، جو یہود و قریش کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھتے تھے، ایک ایک کر کے تابع فرمان ہو گئے۔ اس طرح حدیبیہ کی صلح نے دو ہی سال کے اندر عرب میں قوت کا توازن اتنا بدل دیا کہ قریش اور مشرکین کی طاقت دب کر رہ گئی اور اسلام کا غلبہ یقینی ہو گیا۔یہ تھیں وہ برکات جو مسلمانوں کو اس صلح سے حاصل ہوئیں جسے وہ اپنی ناکامی اور قریش اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے۔ سب سے زیادہ جو چیز اس صلح میں مسلمانوں کو ناگوار ہوئی تھی اور جسے قریش اپنی جیت سمجھا تھا کہ مکہ سے بھاگ کر مدینہ جانے والوں کو واپس کر دیا جائے گا اور مدینہ سے بھاگ کر مکہ جانے والوں کو واپس نہ کیا جائے گا۔ مگر تھوڑی ہی مدت گذری تھی کہ یہ معاملہ بھی قریش پر الٹا پڑا اور تجربہ نے بتا دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نگاہِ دور رس نے اس کے کن نتائج کو دیکھ کر یہ شرط قبول کی تھی۔ صلح کے کچھ دنوں بعد مکہ سے ایک مسلمان ابو بصیر قریش کی قید سے بھاگ نکلے اور مدینہ پہنچے۔ قریش نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معاہدے کے مطابق انہیں ان لوگوں کے حوالے کر دیا جو ان کی گرفتاری کے لیے مکہ سے بھیجے گئے تھے۔ مگر مکہ جاتے ہوئے راستے میں وہ پھر ان کی گرفت سے بچ نکلے اور ساحل بحیرہ احمر کے اس راستے پر جا بیٹھے جس سے قریش کے تجارتی قافلے گذرتے تھے۔ اس کے بعد جس مسلمان کو بھی قریش کی قید سے بھاگ نکلنے کا موقع ملتا وہ مدینہ جانے کے بجائے ابو بصیر کر ٹھکانے پر پہنچ جاتا، یہاں تک کہ 70 آدمی جمع ہو گئے اور انہوں نے قریش کے قافلوں پر چھاپے مار مار کر ان کا ناطقہ تنگ کر دیا۔ آخر کار قریش نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی کہ ان لوگوں کو مدینہ بلا لیں اور حدیبیہ کے معاہدے کی وہ شرط آپ سے آپ ساقط ہو گئی۔ یہ تاریخی پس منظر نگاہ میں رکھ کر اس سورت کو پڑھا جائے تو اسے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔