آیات
89
وحی کی جگہ
مکہ
آیت 35 کے لفظ : وَزُخْرُ فاً سے ماخوذ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورہ جس میں لفظ زُخْرُفْ آیا ہے ۔
کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوسکا ہے ۔ لیکن اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سورہ بھی اسی زمانے میں نزول ہوئی ہے جس میں المومن ،حٰم السجدہ اور الشوریٰ نازل ہوئیں۔ یہ ایک ہی سلسلے کی سورتیں معلوم ہوتی ہیں جن کا نزول اس وقت سے شروع ہوا جب کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جان کے درپے ہوگئے تھے ۔ شب و روز اپنی محفلوں میں بیٹھ بیٹھ کر مشورے کر رہے تھے کہ آپ کو کس طرح ختم کیا جائے، اور ایک حملہ آپ کی جان پر ہو بھی چکا تھا۔ اس صورت حال کی طرف آیات 79۔80۔ میں صاف اشارہ موجود ہے ۔
اس سورے میں پورے زور کے ساتھ قریش اور اہل عرب کے ان جاہلانہ عقائد و اوہام پر تنقید کی گئی ہے جن پر وہ اصرار کیے چلے جا رہے تھے ، اور نہایت محکم و دل نشین طریقے سے ان کی نا معقولیت کا پردہ فاش کیا گیا ہے ، تا کہ معاشرے کا ہر فرد، جس کے اندر کچھ بھی معقولیت موجود ہو، یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ آخر یہ کیسی جہالتیں ہیں جن سے ہماری قوم بری طرح چمٹی ہوئی ہے ، اور جو شخص ہمیں ان کے چکر سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے ۔
کلام کا آغاز اس طرح کیا گیا ہے کہ تم لوگ اپنی شرارتوں کے بل پر یہ چاہتے ہو کہ نزول روک دیا جائے، مگر اللہ نے کبھی اشرار کی وجہ سے انبیاء کی بعثت اور کتابوں کی تنزیل نہیں روکی ہے ، بلکہ ان ظالموں کو ہلاک کر دیا ہے جس اس کی ہدایت کا راستہ روک کر کھڑے ہوئے تھے ۔ یہی کچھ وہ اب بھی کرے گا۔ آگے چل کر آیات 41۔43۔ اور 79۔80 میں یہ مضمون پھر دہرایا گیا ہے ۔ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جان کے درپے تھے ان کو سناتے ہوئے حضور سے فرمایا گیا ہے کہ تم خواہ زندہ رہو یا نہ رہو، ان ظالموں کو ہم سزا دے کر رہیں گے ۔ اور خود ان لوگوں کو صاف صاف متنبہ کر دیا گیا ہے کہ اگر تم نے ہمارے نبی کے خلاف ایک اقدام کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہم بھی پھر ایک فیصلہ کن قدم اٹھائیں گے ۔اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ وہ مذہب کیا ہے جسے یہ لوگ سینے سے لگائے ہوئے ہیں، اور وہ دلائل کیا ہیں جن کے بل بوتے پر یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
خود مانتے ہیں کہ زمین و آسمان کا، اور ان کا اپنا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ جن نعمتوں سے یہ فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ سب اللہ کی دی ہوئی ہیں۔ پھر بھی دوسروں کو اللہ کے ساتھ خدائی میں شریک کرنے پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں۔بندوں کو اللہ کی اولاد قرار دیتے ہیں ۔اور اولاد بھی بیٹیاں جنہیں خود اپنے لیے ننگ و عار سمجھتے ہیں۔ فرشتوں کو انہوں نے دیویاں قرار دے رکھا ہے ۔ ان کے بت عورتوں کی شکل کے بنا رکھے ہیں۔ انہیں زنانہ کپڑے اور زیور پہناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ ان کی عبادت کرتے ہیں اور ان ہی سے منتیں اور مرادیں مانگتے ہیں۔ آخر انہیں کیسے معلوم ہوا کہ فرشتے عورتیں ہیں ؟
ان جہالتوں پر ٹوکا جاتا ہے تو تقدیر کا بہانہ پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اللہ ہمارے اس کام کو پسند نہ کرتا تو ہم کیسے ان بتوں کی پرستش کر سکتے تھے ۔ حالانکہ اللہ کی پسند اور نا پسند معلوم ہونے کا ذریعہ اس کی کتابیں ہیں نہ کہ وہ کام جو دنیا میں اس کی مشیت کے تحت ہو رہے ہیں۔ مشیت کے تحت تو ایک بت پرستی ہی نہیں ، چوری ، زنا، ڈاکہ، قتل، سب ہی کچھ ہو رہا ہے ۔ کیا اس دلیل سے ہر اس برائی کو جائز و برحق قرار دیا جائے گا جو دنیا میں ہو رہی ہے ؟پوچھا جاتا ہے کہ اپنے اس شرک کے لیے تمہارے پاس اس غلط دلیل کے سوا کوئی اور سند بھی ہے ، تو جواب دیتے ہیں کہ باپ دادا سے یہ کام یوں ہی ہوتا چلا آ رہا ہے ۔ گویا ان کے نزدیک کسی مذہب کے حق ہونے کے لیے یہ کافی دلیل ہے ۔ حالانکہ ابراہیم علیہ السلام ، جن کی اولاد ہونے پر ہی ان کے سارے فخر و امتیاز کا مدار ہے ، باپ دادا کے مذہب کو لات کار کر گھر سے نکل گئے تھے اور انہوں نے اسلاف کی ایسی اندھی تقلید کو رد کر دیا تھا جس کا ساتھ کوئی دلیل معقول نہ دیتی ہو۔ پھر اگر ان لوگوں کو اسلاف کی تقلید ہی کرنی تھی تو اس کے لیے بھی اپنے بزرگ ترین اسلاف، ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑ کر انہوں نے اپنے جاہل ترین اسلاف کا انتخاب کیا !
ان سے کہا جاتا ہے کہ کیا کبھی کسی نبی نے اور خدا کی طرف سے آئی ہوئی کسی کتاب نے بھی یہ تعلیم دی ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے بھی عبادت کے مستحق ہیں، تو یہ عیسائیوں کے اس فعل کو دلیل میں پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم کو ابنُ اللہ مانا اور ان کے پرستش کی ۔ حالانکہ سوال یہ نہ تھا کہ کسی نبی کی امت نے شرک کیا ہے یا نہیں،بلکہ یہ تھا کہ خود کسی نبی نے شرک کی تعلیم دی ہے ۔ ؟ عیسیٰ ابن مریمؑ نے کب کہا تھا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور تم میری عبادت کرو۔ ان کی اپنی تعلیم تو وہی تھی جو دنیا کے ہر بنی نے دی ہے کہ میرا رب بھی اللہ ہے اور تمہارا رب بھی ، اسی کی تم عبادت کرو۔محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت تسلیم کرنے میں انہیں تامل ہے تو اس بنا پر کہ ان پاس مال و دولت اور ریاست وجاہت تو ہے ہی نہیں۔ کہتے ہیں کہا اگر خدا ہمارے ہاں کسی کو نبی بنانا چاہتا تو ہمارے دونوں شہروں (مکہ و طائف ) کے بڑے آدمیوں میں سے کسی کو بناتا ۔ اسی بنا پر فرعون نے بھی حضرت موسیٰ کو حقیر جانا تھا اور کہا تھا کہ آسمان کا بادشاہ اگر مجھ زمین کے بادشاہ کے پاس کوئی ایلچی بھیجتا تو اسے سونے کے کنگن پہنا کر، فرشتوں کی ایک فوج اس کی اردلی میں دے کر بھیجتا۔ یہ فقیر کہاں سے آ کھڑا ہوا ؟ فضیلت مجھے حاصل ہے کہ مصر کی بادشاہی میری ہے اور دریائے نیل کی نہریں میری ماتحتی میں چل رہی ہیں۔ یہ شخص میرے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے کہ نہ مال رکھتا ہے نہ اقتدار۔
اس طرح کفار کی ایک ایک جاہلانہ بات پر تنقید کرنے اور اس کے نہایت معقول و مد لل جوابات دینے کے بعد آخر میں صاف صاف کہا گیا ہ کہ نہ خدا کی کوئی اولاد ہے ، نہ آسمان و زمین کے خدا الگ الگ ہیں، نہ اللہ کے ہاں کوئی ایسا شفیع ہے جو جان بوجھ کر گمراہی اختیار کرنے والوں کے اس کی سزا سے بچا سکے اللہ کی ذات اس سے منزّہ ہے کہ کوئی اسکی اولاد ہو۔ وہی اکیلا ساری کائنات کا خدا ہے ، باقی سب اس کے بندے ہیں نہ کہ اس کے ساتھ خدائی صفات و اختیارات میں شریک۔ اور شفاعت اس کے ہاں صرف وہی کر سکتے ہیں جو خود حق پرست ہوں، اور ان ہی کے لیے کر سکتے ہیں جنہوں نے دنیا میں حق پرستی اختیار کی ہو۔