آیات
88
وحی کی جگہ
مکہ
آغاز ہی کے حرف ص سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے ۔
جیسا کہ آگے چل کر بتایا جائے گا، بعض روایات کی رو سے یہ سورۃ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ معظمہ میں علانیہ دعوت کا آغاز کیا تھا اور قریش کے سرداروں میں اس پر کھلبلی مچ گئی تھی۔ اس لحاظ سے اس کا زمانہ نزول تقریباً نبوت کا چوتھا سال قرار پاتا ہے ۔ بعض دوسرے روایات اسے حضرت عمر کے ایمان لانے کے بعد کا واقعہ بتاتی ہیں ، اور معلوم ہے کہ وہ ہجرت حبشہ کے بعد ایمان لائے تھے ۔ ایک اور سلسلہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوطالب کے آخری مرض کے زمانہ میں وہ معاملہ پیش آیا تھا جس پر یہ سورۃ نازل ہوئی۔ اسے اگر صحیح مانا جائے تو اس کا زمانہ نزول نبوت کا دسواں یا گیارہواں سال ہے ۔
تاریخی پس منظر : امام احمد، نسائی، ترمذی، ابن جریر، ابن ابی شیبہ، ابن ابی حاتم اور محمد بن اسحاق وغیرہ نے جو روایات نقل کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ابو طالب بیمار ہوئے اور قریش کے سرداروں نے محسوس کیا کہ اب یہ ان کا آخری وقت ہے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ چل کر شیخ سے بات کرنی چاہیے ۔ وہ ہمارا اور اپنے بھتیجے کا جھگڑا چکا جائیں تو اچھا ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا انتقال ہو جائے اور ان کے بعد ہم محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے ساتھ کوئی سخت معاملہ کریں اور عرب کے لوگ ہمیں طعنہ دیں کہ جب تک شیخ زندہ تھا، یہ لوگ اس کا لحاظ کرتے رہے ، اب اس کے مرنے کے بعد ان لوگو ں نے اس کے بھتیجے پر ہاتھ ڈالا ہے ۔ اس رائے پر سب کا اتفاق ہو گیا اور تقریباً 25 سرداران قریش، جن میں ابو جہل، ابو سفیان، امیہ بن خلف، عاص بن وائل، اسود بن المطلب، عقنہ بن ابی معیط، عتبہ اور شیبہ شامل تھے ، ابو طالب کے پاس پہنچے ۔ ان لوگوں نے پہلے تو حسب معمول نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف اپنی شکایات بیان کیں ، پھر کہا ہم آپ کے سامنے ایک انصاف کی بات پیش کرنے آئے ہیں ۔ آپ کا بھتیجا ہمیں ہمارے دین پر چھوڑ دے اور ہم اسے اس کے دین پر چھوڑے دیتے ہیں ۔ وہ جس معبود کی عبادت کرنا چاہے کرے ، ہمیں اس سے کوئی تعرض نہیں ، مگر وہ ہمارے معبودوں کی مذمت نہ کرے اور یہ کوشش نہ کرتا پھرے کہ ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ۔ اس شرط پر آپ ہم سے اس کی صلح کرا دیں ۔ ابو طالب نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بلایا اور آپ سے کہا کہ بھتیجے ، یہ تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں ۔ ان کی خواہش ہے کہ تم ایک منصفانہ بات پر ان سے اتفاق کر لو تاکہ تمہارا اور ان کا جھگڑا ختم ہو جائے ۔ پھر انہیں نے وہ بات حضورؐ کو بتائی جو سرداران قریش نے ان سے کہی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں فرمایا، چچا جان، میں تو ان کے سامنے ایک ایسا کلمہ پیش کرتا ہوں جسے اگر یہ مان لیں تو عرب ان کا تابع فرمان اور عجم اور کا باج گزار ہو جائے ( حضورؐ کے اس ارشاد کو مختلف راویوں نے مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے ۔ ایک روایت یہ ہے کہ آپ نے فرمایا انید اھم علیٰ کلمۃ واحدۃ یقولو نھا تدین لھم بھا العرت و تؤدّی الیھم بھا العجم الجزیرۃ۔ دوسری روایت میں الفاظ یہ ہیں : ادعو ھم الیٰ ان یتکلمو ا بکلمۃ تدین لھم بھا العرب ویملکون بھا لعجم۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپؐ نے ابو طالب کے بجائے قریش کے لوگوں کو خطاب کر کے فرمایا : کلمۃ واحدۃ تعطو نیھا تملکون بھا العرب و تدین لکم بھا لعجم اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں : ارأیتم ان اعطیتکم کلمۃ تکلمتم بھا ملکتم بھا العرب و دانت لکم بھا العجم۔ ان لفظی اختلافات کے باوجود مدعا سب کا یکساں ہے ، یعنی حضورؐ نے ان سے کہا کہ اگر میں ایک ایسا کلمہ تمہارے سامنے پیش کروں جسے قبول کر کے تم عرب و عجم کے مالک ہو جاؤ گے تو بتاؤ کہ یہ زیادہ بہتر بات ہے یا وہ جسے تم انصار کی بات کہہ کر میرے سامنے پیش کر رہے ہو؟ تمہاری بھلائی اس کلمے کو مان لینے میں ہے یا اس میں کہ جس حالت میں تم پڑے ہو اس میں تم کو پڑا رہنے دوں اور بس اپنی جگہ آپ ہی اپنے خدا کی عبادت کرتا رہوں؟یہ)۔ یہ سن کر پہلے تو وہ لوگ سٹ پٹا گئے ۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آخر کیا کہہ کر ایسے ایک مفید کلمے تو رد کر دیں ۔ پھر کچھ سنبھل کر بولے ، تم ایک کلمہ کہتے ہو، ہم ایسے دس کلمے کہنے کس تیار ہیں ، مگر یہ تو بتاؤ کہ وہ کلمہ کیا ہ؟ آپ نے فرمایا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ا للہ۔ اس پر وہ سب یک بارگی اٹھ کھڑے ہوئے اور وہ باتیں کہتے ہوئے نکل گئے جو اس سورۃ کے ابتدائی حصے میں اللہ تعالیٰ نے نقل کی ہیں ۔ابن سعد نے طبقات میں یہ سارا قصہ اسی طرح بیان کیا ہے جس طرح اوپر مذکور ہوا، مگر ان کی روایت کے مطابق یہ ابو طالب کی مرض وفات کا نہیں بلکہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضورؐ نے دعوتِ عام کی ابتدا کی تھی اور مکہ میں پے در پے یہ خبریں پھیلنی شروع ہو گئی تھیں کہ آج فلاں آدمی مسلمان ہوا اور کل فلاں ۔ اس وقت سرداران قریش یکے بعد دیگرے کئی وفد ابو طالب کے پاس لے کر پہنچے تھے تاکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اس تبلیغ سے روک دیں اور انہی وفود میں سے ایک وفد کے ساتھ یہ گفتگو ہوئی تھی۔
زَمخشری، رازی نیسا بوری اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ یہ وفد ابو طالب کے پاس اس وقت گیا تھا جب حضرت عمرؓ کے ایمان لانے پر سرداران قریش بوکھلا گئے تھے ، لیکن کتب روایت میں سے کسی میں اس کا حوالہ ہمیں نہیں مل سکا ہے اور نہ ان مفسرین نے اپنے ماخذ کا حوالہ دیا ہے ۔ تا ہم اگر یہ صحیح ہو تو یہ ہے سمجھ میں آنے والی بات۔ اس لیے کہ کفار قریش پہلے ہی یہ دیکھ کر گھبرائے ہوئے تھے کہ اسلام کی دعوت لے کر ان کے درمیان سے ایک ایسا شخص اُٹھا ہے جو اپنی شرافت، نے داغ سیرت اور دانائی و سنجیدگی کے اعتبار سے ساری قوم میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔ اور پھر اس کا دست راست ابو بکر جیسا آدمی ہے جسے مکے اور اس کے اطراف کا بچہ بچہ ایک نہایت شریف، راستباز اور ذکی انسان کی حیثیت سے جانتا ہے ۔ اب جو انہوں نے دیکھا ہو گا کہ عمر بن خطاب جیسا جری اور صاحب عزم آدمی بھی ان دونوں سے جا ملا ہے تو یقیناً انہیں محسوس ہوا ہو گا کہ خطرہ حدّ برداشت سے گزرتا جا رہا ہے ۔اوپر جس مجلس کا ذکر کیا گیا ہے اسی پر تبصرے سے اس سورۃ کا آغاز ہوا ہے ۔ کفار اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی گفتگو کو بنیاد بنا کر اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ان لوگوں کے انکار کی اصل وجہ دعوت اسلامی کا کوئی نقص نہیں ہے بلکہ ان کا اپنا تکبر اور حسد اور تقلید اعمیٰ پر اصرار ہے ۔ یہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اپنی ہی برادری کے ایک آدمی کو خدا کا نبی مان کر اس کی پیروی قبول کر لیں ۔ یہ انہی جاہلانہ تخیلات پر جمے رہنا چاہتے ہیں جن پر انہوں نے اپنے قریب کے زمانے کے لوگوں کو پایا ہے ، اور جب اس جہالت کے پردے کو چاک کر کے ایک شخص ان کے سامنے اصل حقیقت کو پیش کرتا ہے تو یہ اس پر کان کھڑے کرتے ہیں اور اسے عجیب بات بلکہ نرالی اور انہونی بات قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک توحید اور آخرت کا تخیل محض ناقابل قبول ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسا تخیل ہے جس کا بس مذاق ہی اُڑایا جا سکتا ہے ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورہ کے ابتدائی حصے میں بھی اور آخری فقروں میں بھی کفار کو صاف صاف متنبہ کیا ہے کہ جس شخص کا تم آج مذاق اڑا رہے ہو اور جس کی رہنمائی قبول کرنے سے تم کو آج سخت انکار ہے ، عنقریب وہی غالب آ کر رہے گا اور وہ وقت دور نہیں ہے جب اسی شہر مکہ میں ، جہاں تم اس کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہو، اس کے آگے تم سب سرنگوں نظر آؤ گے ۔پھر پے در پے 9 پیغمبروں کا ذکر کر کے ، جن میں حضرت داؤد و سلیمانؑ کا قصہ زیادہ مفصل ہے ، اللہ تعالیٰ نے یہ بات معین کے ذہن نشین کرائی ہے کہ اس کا قانون عدل بالکل بے لاگ ہے ، اس کے ہاں انسان کا صحیح رویہ ہی مقبول ہے ، بے جا بات خواہ کوئی بھی کرے وہ اس پر گرفت کرتا ہے ، اور اس کے ہاں وہی لوگ پسند کیے جاتے ہیں جو لغزش پر اصرار نہ کریں بلکہ اس پر متنبہ ہوتے ہی تائب ہو جائیں اور دنیا میں آخرت کی جواب دہی کو یاد رکھتے ہوئے زندگی بسر کریں ۔
اس کے بعد فرماں بردار بندوں اور سرکش بندوں کے اس انجام کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو وہ علم آخرت میں دیکھنے والے ہیں اور اس سلسلے میں کفار کو دو باتیں خاص طور پر بتائی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ آج جن سرداروں اور پیشواؤں کے پیچھے جاہل لوگ اندھے بن کر ضلالت کی راہ پر چلے جا رہے ہیں ، کل وہی جہنم میں اپنے پیروؤں سے پہلے پہنچے ہوئے ہوں گے اور دونوں ایک دوسرے کو کوس رہے ہوں گے ۔ دوسرے یہ کہ آج جن اہل ایمان کو یہ لوگ ذلیل و خوار سمجھ رہے ہیں ، کل یہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر حیرت کے ساتھ دیکھیں گے کہ ان کا جہنم میں کہیں نام و نشان تک نہیں ہے اور یہ خود اس کے عذاب میں گرفتار ہیں ۔ آخر میں قصہ آدم و ابلیس کا ذکر فرمایا گیا ہے اور اس سے مقصود کفار قریش کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے آگے جھکنے سے جو تکبر تمہیں مانع ہو رہا ہے وہی تکبر آدم کے آگے جھکنے سے ابلیس کو بھی مانع ہوا تھا۔ خدا نے جو مرتبہ آدم کو دیا تھا اس پر ابلیس نے حسد کیا اور حکم خدا کے مقابلے میں سرکشی اختیار کر کے لعنت کا مستحق ہوا۔ اسی طرح جو مرتبہ خدا نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا ہے اس پر تم حسد کر رہے ہو اور اس بات کے لیے تیار نہیں ہو کہ جسے خدا نے رسول مقرر کیا ہے اس کی اطاعت کرو، اس لیے جو انجام ابلیس کا ہونا ہے وہی آخر کار تمہارا بھی ہونا ہے ۔