آیات
99
وحی کی جگہ
مکہ
آیت ۸۰ کے فقرے
کَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْ سَلِیْنَسے ماخوذ ہے۔
“مضامین اور انداز بیان سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ اس سورے کا زمانۂ نزلو سورۂ ابراہیم سے متصل ہے۔ اس کے پس منظر میں دو چیزیں بالکل نمایاں نظر آتی ہیں۔ ایک یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دیتے ایک مُدّت گزر چکی ہے اور مخاطب قوم کی مسلسل ہٹ دھرمی ، استہزا، مزاحمت اور ظلم و ستم کی حد ہو گئی ہے ، جس کے بعد اب تفہیم کا موقع کم اور تنبیہ کا موقع زیادہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اپنی قوم کے کفر و حجود اور مزاحمت کے پہاڑ توڑتے توڑتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھکے جا رہے ہیں اور دل شکستگی کی کیفیت بار بار آپ پر طاری ہو رہی ہے ، جسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ آپ کو تسلی دے رہا ہے اور آپ کی ہمت بندھا رہا ہے۔
یہی دو مضمون اس سورے میں بیان ہو ئے ہیں۔ یعنی تنبیہ اُن لوگوں کو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا انکار کر رہے تھے اور آپ کا مذاق اُڑاتے اور آپ کے کام میں طرح طرح کی مزاحمتیں کرتے تھے ۔ اور تسلی وہمّت افزائی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سورہ تفہیم اور نصیحت سے خالی ہے۔ قرآن میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے مجرد تنبیہ ، یا خالص زجرو توبیخ سے کام نہیں لیا ہے۔ سخت سے سخت دھمکیوں اور ملامتوں کے درمیان بھی وہ سمجھانے اور نصیحت کرنے میں کمی نہیں کرتا۔ چنانچہ اس سورے میں بھی ایک طرف توحید کے دلائل کی طرف مختصر اشارے کیے گئے ہیں ، اور دوسری طرف قصہ ٔ آدم و ابلیس سنا کر نصیحت فرمائی گئی ہے۔