آیات
7
وحی کی جگہ
مکہ
آخری آیت کے آخرلفظ الماعون
کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔
ابنِ مَرْدُوْیَہ نے ابن عباس اور ابن الزُّبَیر رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیاہے کہ یہ سورہ مکّی ہے ، اور یہی قول عطاء اور جابر کا بھی ہے ۔ لیکن ابو حَیان نے البحر المُحِیط میں ابن عباس اور قَتادہ اور ضحّاک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ ہمارے نزدیک خود اِس سورہ کے اندر ایک داخلی شہادت ایسی موجود ہے جو اس کے مدنی ہونے پر دلالت کرتی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اِس میں اُن نماز پڑھنے والوں کو تباہی کی وعید سُنائی گئی ہے جو اپنی نمازوں سے غفلت برتتے اور دکھاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں ۔ منافقین کی یہ قسم مدینے ہی میں پائی جاتی تھی ، کیونکہ وہیں اسلام اور اہلِ اسلام کو یہ قوّت حاصل ہوئی تھی کہ بہت سے لوگوں کو مصلحۃً ایمان لانا پڑا تھا اور وہ مجبوراً مسجد میں آتے تھے، جماعت میں شریک ہوتے تھے اور دکھاوے کی نمازیں پڑھتے تھے، تاکہ اُنہیں مسلمانوں میں شمار کیا جائے ، اس کے برعکس مکّے میں ایسے حالات سِرے سے موجود ہی نہ تھے کہ وہاں کسی کو دکھاوے کی نماز پڑھنی پڑتی۔ وہاں تو اہلِ ایمان کے لیے نمازِ با جماعت کا اہتمام بھی مشکل تھا۔ اُن کو چھُپ چھُپ کر نما ز پڑھنی پڑتی تھی اور کوئی عَلانیہ پڑھتا تھا تو جان پر کھیل کر پڑھتا تھا۔ منافقین کی جو قسم وہاں پائی جاتی تھی وہ ریاکارانہ ایمان لانے اور دکھاوے کی نمازیں پڑھنے والوں کی نہیں، بلکہ اُن لوگوں کی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برسرحق ہونے کو جان اور مان گئے تھے ، مگر اُن میں سے کوئی اپنی ریاست و وجاہت اور مشیخت کو برقرار رکھنے کی خاطر اسلام قبول کرنے سے گریز کر رہا تھا اور کوئی یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہ تھا کہ مسلمان ہو کر اُن مصائب میں مبتلا ہو جائے جن میں وہ ایمان لانے والوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مبتلا دیکھ رہا تھا۔ مکّی دور کے منافقین کی یہ حالت سورۂ عنکبوت ، آیات ۱۱-۱۰ میں بیان کی گئی ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، العنکبوت، حواشی ۱۳ تا ۱۶)۔
اس کا موضوع یہ بتاتا ہے کہ آخرت پر ایمان نہ لانا انسان کے اندر کس قسم کے ا خلاق پیدا کرتا ہے۔ آیت ۲ اور ۳ میں اُن کفار کی حالت بیان کی گئی ہے جو عَلانیہ آخرت کو جھٹلاتے ہیں۔ اور آخری چار آیتوں میں اُن منافقین کا حال بیان کیا گیا ہے جو بظاہر مسلمان ہیں ، مگر دل میں آخرت اور اُس کی جزا و سزا اور اُس کے ثواب و عِقاب کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔ مجموعی طور پر دونوں قسم کے گروہوں کے طرزِ عمل کو بیان کرنے سے مقصود یہ حقیقت لوگوں کے ذہن نشین کرنا ہے کہ انسان کے اندر ایک مضبوط اور مستحکم پاکیزہ کردار عقیدۂ آخرت کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔